i پاکستان

بانی پی ٹی آئی کی ملاقات کی خواہش کا علم نہیں ،مولانافضل الرحمنتازترین

December 17, 2024

جمعیت علمائے اسلام( ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے میرے ساتھ ملنے کی خواہش ظاہر کی ہے،مدارس رجسٹریشن میں سب سے بڑی رکاوٹ حکومت خود ہے، یہ راز تو آج کھلا ہے ہماری قانون سازی آئی ایم ایف کی مرضی سے ہو رہی ہے۔۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے منگل کو پارلیمنٹ سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ایوان کی عوامی نمائندگی پر ہمیں تحفظات ضرور ہیں، لیکن ساتھ ساتھ پارلیمانی ذمے داریاں بھی یہ ایوان نبھار ہا ہے۔ ہم بھی اسی ایوان کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے 26ویں آئینی ترمیم پاس کی اور یوں سمجھیں کہ وہ اتفاق رائے کے ساتھ تھا۔ اس میں تمام پارٹیاں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں پر آن بورڈ تھیں ، اگرچہ بڑی اپوزیشن پارٹی نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی اور اس حوالے سے مذاکرات کا عمل بھی ایک عرصے سے زائد رہا۔مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اس میں تمام پارٹیاں اپوزیشن اور حکومتی بینچز میں آن بورڈ تھیں۔ سیاست میں یہی ہوتا ہے کہ مذاکرات ہوتے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو سمجھاتے ہیں،دلائل سے سمجھاتے ہیں اور پھر مسئلہ ایک حل کی طرف پہنچ جاتا ہے۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ نہوں نے کہا کہ دینی مدارس کے حوالے سے بل تھا، دینی مدارس بل کے حوالے سے ہسٹری بتانا چاہتا ہوں۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ جب حکومت مطمئن ہوگئی تو قانون سازی ہوئی، میرے حکومت اور دینی مدارس کے مذاکرات ہوئے،2004 میں مدارس کے حوالے سوالات اٹھائے گئے، ان سوالات پر مذاکرات ہونے کے بعد قانون سازی ہوئی ،کہا گیا کہ دینی مدارس محتاط رہیں گے کہ شدت پسندانہ مواد پیش نہ کیا جائے ۔ خفیہ ایجنسیاں مدارس میں براہ راست جاتی تھیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے بعد 2010 میں دوبارہ معاہدہ ہوا ، ہمارے نزدیک تو معاملات طے تھے لیکن اس کے بعد اٹھارہویں ترمیم پاس ہوئی ۔ حکومت نے کہا کہ مدارس سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوتے ہیں ۔ پھر وزرات تعلیم کی بات آئی اور بات چیت ہوتی رہی۔ وہ ایکٹ نہیں بنا لیکن محض معاہدہ تھا ۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پہلی بات تھی کہ نئے مدارس کی رجسٹریشن پر حکومت تعاون کرے گی ۔ دینی مدارس کے بینک اکاونٹس کھولنے کی بات بھی ہوئی ، غیر ملکی طلبہ کو 9 سال کا ویزا دینے کی بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مدارس 1860 کی سوسائیٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹر ہوتے ہیں، کیونکہ اب یہ صوبائی مسئلہ بن گیا ہے تو وزارت تعلیم کے ساتھ رجسٹر ہوں، لیکن وہ ایکٹ نہیں بنا، وہ محض ایک معاہدہ تھا، وہ معاہدہ 3 باتوں پر مشتمل تھا۔جے یو آئی ف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پہلی بات کہ جن کی رجسٹریشن ہو چکی ہے وہ برقرار رکھی جائے گی، دوسری بات مدارس کے بینک اکانٹس کھول دیے جائیں گے، تیسری بات غیرملکی طلبا کو مدارس میں تعلیم کے لیے 9 سال کا ویزا دیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق وزیر قانون نے مسودہ تیار کیا اور ایوان میں لایا گیا، اتفاق کے باوجود قانون سازی کے وقت بل میں تبدیلیاں کی گئیں، 21 اکتوبر کو بل منظور ہوا، 28 کو صدر نے اعتراض کیا، اسپیکر اور قومی اسمبلی نے اصلاح کر کے بل واپس صدر کو بھیج دیا تھا۔

مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ صدر نے بل پر دوبارہ کوئی اعتراض نہیں کیا، دوسرے اعتراض کا حق بھی نہیں، تمام تنظیمات مدارس کا متفقہ موقف ہے کہ ایکٹ بن چکا، اسپیکر ایاز صادق نے انٹرویو میں کہا کہ ان کے مطابق یہ ایکٹ بن چکا، ایکٹ بن چکا تو گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہو رہا، اس بل کو دوبارہ لاکر ترمیم کرنا غلط نظیر ہوگی، صدر کا دوسرا اعتراض آئینی لحاظ سے ٹھیک نہیں، اب تاویلیں نہیں چلیں گی۔انہوں نے کہا کہ خلائی مدارس کے لیے ہمارے حقیقی مدارس کے نظام کو برباد نہ کیا جائے۔ قبل ازیں پارلیمنٹ ہائوس کے باہر میڈ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کیا کہ میرا موقف ہے کہ مدارس رجسٹریشن ترمیمی بل ایکٹ بن چکا ہے،حکومت کو اسے منظور کر لینا چاہیے۔اب غلط روایت کیوں ڈالی جارہی ہے ،کل تو آئین ہی ختم ہو جائے گا ۔ایک مرتبہ ایکٹ بن چکا ہے پھر اس کو نظر ثانی کیوں کی جا رہی ہے۔اگر آپ کی نہ مانی گئی تو باتیں کس طرف جارہی ہیں ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا یہ تو پھر ان پر ہوگا، باتیں کس طرف لیجانا چاہتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ہم پیپلز پارٹی اور ن لیگ کو سمجھا کر چکے ہیں،سمجھ نہیں آرہی کہ یہ معاملات کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مذاکرات ہونے چاہئیں اور بامقصد ہونے چاہئیں،حالات کو خراب نہ کیا جائے۔

کریڈٹ : انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی