ایک سال اور گزر گیا، کراچی میں فائٹر سیفٹی سٹینڈرڈز پر عمل نہ کرایا جاسکا، آتشزدگی کے 2 ہزار واقعات میں شہریوں، کاروباری طبقے اور صنعتکاروں کو اربوں روپے کا نقصان ہوا، فائر فائٹنگ کی سہولیات محدود ہونا بھی بڑے نقصان کی ایک وجہ بنا۔ تفصیلات کے مطابق سال 2022 میں بھی فائر سیفٹی سٹینڈرڈز پرعمل نہ کرایا جا سکا، آتشزدگی کے 2100 سے زائد واقعات میں شہریوں، تاجروں اور صنعتکاروں کو اربوں روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ کراچی کی آبادی کا تخمینہ ایک کروڑ 60 لاکھ اور ایک لاکھ آبادی کے لیے ایک فائر اسٹیشن ایک فائر ٹینڈر کا معیار مقرر ہے، شہر میں صرف 29 فائر سٹیشنز، 42 فائر ٹینڈرز جبکہ 5 میں سے 2 سنارکل آگ سے نمٹنے کے لیے دستیاب ہیں۔ 2022 میں جیل روڈ پر کثیر منزلہ عمارت میں قائم سپر سٹور کے تہہ خانے میں آتشزدگی بڑے نقصان اور قیمتی جان کے ضیاع کا سبب بنی۔
گنجان آباد شہر میں محدود سہولیات کے ساتھ آتشزدگی کے واقعات سے نمٹنا فائر فائٹرز کے لیے چیلنج بنا رہا اس پر شہری انتظامیہ کا کہنا ہے فائر سٹیشنز کے پاس وسائل کی حالت یہ ہے کہ عرصہ سے وائر لیس خراب پڑے ہیں، موبائل فون کالز پر شہر بھر سے فائر ٹینڈر طلب کرنے میں نصف گھنٹہ ضائع ہو جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے فائر سیفٹی معیارات پرعمل نہ کرانا نقصان کی بڑی وجہ ہے، آتشزدگی کے کسی بھی بڑے واقعہ کے بعد کثیر منزلہ عمارتوں کو نوٹس بھجوائے جاتے ہیں اور معاملہ ٹھنڈا پڑتے ہی نوٹس بھی فائلوں کے انبار میں گم ہو جاتے ہیں۔ حفاظتی سامان کی عدم فراہمی بھی فائر فائٹرز کی زندگیوں کیلئے خطرات سمیت آتشزدگی کے واقعات سے نمٹنے میں بھی بڑی رکاوٹ ہے، شہر کی بڑھتی آبادی کے ساتھ آتشزدگی کے چیلنجز بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی