وزیر مملکت خزانہ علی پرویز ملک نے کہا ہے کہ شہباز شریف نے جو راستہ اختیار کیا ہے وہ وہ کٹھن ضرور ہے ناممکن نہیں ہے ،عام آدمی کو مہنگائی سے پہنچنے والی تکلیف کا احساس ہے، تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس نیٹ نہ بڑھاتے تو ٹیکس کس پر لگاتے،ماضی میں خسارے پورے کرنے کیلئے نوٹ چھاپے گئے، مختلف اوقات میں قرض لے کر بھی خسارے پورے کئے جاتے رہے ۔ پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی پرویز ملک کا کہنا تھاکہ ہم حلقوں کی سیاست کرتے ہیں، ہمیں آپ کی تکلیف کا اندازہ ہے مگر کیا آپ نے دیکھا کہ ایک سال پہلے پاکستان کہاں کھڑا تھا اور اب بہتری آئی ہے، شاید شہباز شریف اور ریلیف دینا چاہتے تھے وہ نہ دے سکے لیکن کچھ معاشی حقیقتیں بھی ہیں، جب خسارہ بڑھتا ہے تو اس کو بھرنے کا طریقہ ایک یہ ہے کہ نوت چھاپیں یا دوسرا یہ ہے کہ آپ قرض لے کر اگلی نسلوں پر بوجھ ڈالیں، ہم نے یہ دونوں ہی کر کے دیکھ لیا ہے، یہ راستہ مشکل ضرور ہے لیکن اگر ہم یہ نا کرتے تو کیا صورتحال ہوجاتی اس پر بھی سوچیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ شعبے کو ٹیکس نہیں دیتے تھے تو کس وزیر خزانہ نے یہ ہمت کی ان سے براہ راست نمٹے اور ان کو کہے کہ ہم آپ کو ہر قسم کی آسانیاں دیں گے لیکن آپ آمدنی پر ٹیکس دیں۔ان کا کہنا تھا کہ ریئل اسٹیٹ میں 9 ٹریلین روپے ہیں، انہیں کہاں ہے کہ دستاویزی معشیت میں آئیں، نان فائلرز بنیں گے تو آپ کیلیے ریٹ بھی زیادہ ہوگا اور بعد میں اس حوالے سے آپ سے ایف بی آر پوچھے گا بھی، یہ ایک مرحلہ ہے جس سے آپ کو گزرنا پڑے گا۔وزیر مملکت نے کہا کہ بجٹ میں کمزور طبقات کے لیے بھی رقوم مختص کی گئی ہیں، بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے ریکارڈ رقم مختص کی گئی، بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے رقم رکھی گئی ہے، اسی طرح سے کم از کم اجرت 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار کردی گئی ہے، جب ایک چپڑاسی کی تنخواہ 37 ہزر ہو جائے گی تو اوپر جو اکانٹنٹ ہے، اس کی تنخواہ بھی 37 ہزار نہیں رہ سکتی، پورا اسکیل ایڈجسٹمنٹ ہوگا۔ علی پرویز ملک نے کہا کہ ڈیجیٹائزیشن اور انفورسمنٹ سے متعلق اقدامات پر عمل در آمد کو کچھ وقت دیں، پھر جب ہمارے پاس دکھانے کے لیے کچھ ہوگا تو ہم اگلے لوگوں سے آسانیاں لے سکتے ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی