فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں یونائیٹڈ بزنس گروپ (یو بی جی)کے چیئرمین شہزاد علی ملک نے کہا ہے کہ خطے اور اس کے ارد گرد منڈلاتے ہوئے غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک خصوصا جنوبی ایشیا کے لیے یہ ایک بڑا خطرہ بن کر سامنے آرہا ہے۔ ہفتہ کویو بی جی کے زیراہتمام یہاں منعقدہ ''پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کے اثرات'' کے موضوع پر ایک پینل مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری شہزاد علی ملک، ستار امتیاز ، نے کہا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اشیائے خوردونوش کا افراط زر دوہرے ہندسے میں پہنچ گیا ہے اور اس تناظر میں کم ہوتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے مزید پاکستانی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے جن میں سے 18 فیصد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے گندم اور چاول سمیت وہ خوراک زیادہ پیدا کی ہے جو اس کی آبادی کی اکثریت استعمال کرتی ہے تاہم خوراک کی پیداوار میں مجموعی اضافے کے باوجود معاشرے کے کمزور طبقہ اور غریب ترین آبادی کو مناسب اور غذائیت سے بھرپور خوراک میسر نہیں۔ اس کی بنیادی وجہ غریب ترین افراد کی خوراک تک محدود معاشی رسائی ہے خاص طور پر خواتین کو مناسب اور متنوع خوراک کی کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خوراک کے تمام تکمیلی اشاریے قابل قبول سطح سے بہت نیچے ہیں، 6 سے 23 ماہ کی عمر کے 7 میں سے مشکل سے صرف ایک بچے کو غذائی تنوع کے ساتھ خوراک ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بچوں کا بڑا حصہ غذا کی کم سے کم یومیہ شرح سے محروم ہے۔ انہوں نے کہا کہ دستیابی اور استطاعت غذائی عدم تحفظ کی دو جہتیں ہیں۔
انتہائی غربت، غذائی عدم تحفظ، غذائیت کی کمی، بار بار انفیکشن، صحت کی خرابی اور پوشیدہ بھوک کا بھی ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے جبکہ ہر سال بھوک کا شکار لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آبادی میں مسلسل اور تیزی سے اضافہ، خوراک کی طلب اور قیمتوں میں اضافہ، زرعی فصلوں کی انواع کی عدم موجودگی، پانی کی قلت، زمین کی دستیابی میں کمی اور خوراک کا ضیاع غذائی تحفظ کے لیے اہم خطرات ہیں۔
شہزاد علی ملک نے کہا کہ موجودہ حالات میں ہمیں پاکستان سمیت خطے میں شدید غذائی عدم تحفظ کو روکنے کے لیے فوری اصلاحی اقدامات کرکرنا ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو قابل عمل قومی پالیسی کی تشکیل کے لیے اعتماد میں لیا جانا چاہیے تاکہ سرکاری اور نجی شعبوں کی فعال شرکت کو یقینی بناتے ہوئے اس بنیادی مسئلے کو حل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی