رواں مالی سال پاکستان کی کل بیرونی فنانسنگ کا تخمینہ30 ارب ڈالر ہے جس کیلئے ملک کو 37 ارب ڈالر کی فنانسنگ دستیاب ہونا ضروری ہے،کرنٹ اکاونٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3 فیصد یا 10 ارب ڈالر ہوگا،مالی سال 2022-23 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان،چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ضرورت ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق درآمدات اور کھپت میں اضافے کے نتیجے میں ہر دو سے تین سال کرنٹ اکائونٹ اور مالیاتی خسارے میں اضافہ ہوتا ہے اور اس چکر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیشت کو پروان چڑھایا جا سکے۔ ایک پائیدار اور برآمدات کی قیادت میں ترقی کا راستہ تبھی ممکن ہو گا جب قومی سطح پر بات چیت شروع کی جائے ۔ایک چارٹر آف اکانومی وقت کی اہم ضرورت ہے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے ماہر اقتصادیات ڈاکٹر ناصر محمود نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاشی اور مالیاتی پالیسیوں کو اس طرح تیار اور لاگو کیا جانا چاہئے کہ وہ ترقی کو بری طرح متاثر نہ کریں اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ نہ کریں۔
ماہر معاشیات نے کہا کہ معاشی استحکام کے اقدامات نے تقریبا ہمیشہ پاکستان کو بیل آوٹ پیکجز کے لیے آئی ایم ایف کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور کیاجنہیں کچھ سخت شرائط کے ساتھ منظور کیا گیا تھاجس کی وجہ سے عام آدمی کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ناصر محمود نے کہا کہ پاکستان کو برآمدات بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ درآمدات کو کم کرناچاہیے جو صنعتی اور زرعی پیداوار کو بڑھانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی کے ذریعے ممکن ہے۔ انہوں نے کہاکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 87 ملین ڈالر کم ہو کر 7.81 ارب ڈالر رہ گئے ہیں جس کی وجہ درآمدات میںاضافہ ہے۔ ڈالر کی آمدمیں کمی کے نتیجے میں شرح مبادلہ میں کمی اور کرنٹ اکانٹ خسارے میں اضافہ ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں کمی کے ساتھ، پاکستان کے کل غیر ملکی ذخائر 92 ملین ڈالر کم ہو کر 13.52 ارب ڈالر رہ گئے ہیں کیونکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر میں 4 ملین ڈالر کی معمولی کمی واقع ہوئی ہے جن کے پاس 5.71 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ اور مقامی کرنسی کو مضبوط کرنااولین ترجیح ہونی چاہیے۔ دوست ممالک قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کو 4 ارب ڈالر سے زائد کی فنانسنگ اور سرمایہ کاری فراہم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی دنیا کے سب سے بڑے خودمختار فنڈز میں سے ایک ہے اور ان کے 3ارب ڈالر فنڈز سے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم کرنے اور شرح مبادلہ پر دبا وکو کم کرنے میں مدد ملے گی۔
انہوں نے کہاکہ سعودی عرب نے پاکستان کی معیشت کیلئے ایک ارب ڈالر دینے کے منصوبے کا بھی اعلان کیا ہے جس سے جاری مالی سال 2022-23 کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس کا انحصار اس بات پر بھی ہوگا کہ آیا پاکستان ان اقدامات پر عمل درآمد کرے گا جن پر اس نے آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی کل بیرونی فنانسنگ کی ضروریات تقریبا 30 ارب ڈالر ہونے کا تخمینہ ہے جس کیلئے ملک کو 37 بلین ڈالر کی فنانسنگ دستیاب ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہاکہ معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت کے حالیہ اقدامات کے نتیجے میں جولائی کے مہینے میں درآمدات کم ہوئیں جس کی وجہ سے کرنٹ اکاونٹ خسارہ گزشتہ سال کے مقابلے میں45 فیصد کم ہو کر 1.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ناصر محمود نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کو توقع ہے کہ کرنٹ اکاونٹ خسارہ رواں مالی سال جی ڈی پی کا تقریبا 3 فیصد یا 10 ارب ڈالر ہوگا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی