پنجاب حکومت گائے کے گوشت اور دودھ کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے لائیو سٹاک کے شعبے کو تقویت دینے کا منصوبہ رکھتی ہے۔چین اور دیگر ممالک کو گائے کے گوشت اور دودھ کی برآمدات کو بڑھانے کی خواہشمند وزیراعلی مریم نواز نے حال ہی میں ایک اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے لائیو سٹاک حکام کو فوری اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔سابق لائیو سٹاک آفیسر ڈاکٹر محمد اکبرنے ویلتھ پاک کو بتایا کہ لائیو سٹاک کا شعبہ پاکستان کے لیے زرمبادلہ کمانے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسٹائل کی صنعت کی طرح لائیو سٹاک کے شعبے میں بھی روزگار کے مواقع پیدا کرنے، کاروبار کو فروغ دینے اور زرمبادلہ حاصل کرنے کی زبردست صلاحیت موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ لائیو سٹاک کا شعبہ اس وقت جی ڈی پی میں 14.36 فیصد حصہ ڈالتا ہے،انہوں نے کہا کہ صرف صوبہ پنجاب ملک کا 62 فیصد دودھ، 65 فیصد پولٹری کا گوشت، 43 فیصد گائے کا گوشت اور 33 فیصد مٹن پیدا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین سالانہ اربوں ڈالر کا گوشت اور دودھ درآمد کرتا ہے جو اس کی مارکیٹ کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسان اب بھی جانوروں کی پرورش کے لیے کئی دہائیوں پرانے طریقے استعمال کر رہے ہیں اور انہیں پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے جدید طریقوں کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔لائیو سٹاک کے شعبے کی برآمدی صلاحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے مختلف اضلاع میں جدید فارمز قائم کرنے چاہییں۔ جدید ترین فارمز کے قیام سے، دودھ اور گائے کے گوشت کی پیداوار میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چیف منسٹر نے عہدیداروں سے کہا ہے کہ وہ مویشیوں کا درست ڈیٹا تیار کریں اور تحقیق اور ترقی پر خصوصی توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ دیہی علاقوں میں مویشیوں کی بیماریاں اب بھی پھیلی ہوئی ہیںجس کے لیے وہاں ویٹرنری ڈاکٹروں کی دستیابی کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی نے بیماریوں پر قابو پانے کے اقدامات کو بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔اکبر نے کہا کہ ویکسینیشن پروڈکشن لیبز کی اپ گریڈیشن کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز درکار ہیں اور اس کے لیے وزیر اعلی سے درخواست کی گئی ہے۔فیصل آباد کے سرگودھا روڈ پر دکان رکھنے والے ایک قصاب روف احمد نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ صحت مند جانور حاصل کرنا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ لائیو سٹاک حکام صارفین کی شکایات کو دور کرنے میں ناکام رہے کہ قصاب وزن بڑھانے کے لیے گوشت کو پانی دیتے ہیں، اس طرح اس کے معیار سے سمجھوتہ کر کے ان کی صحت کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ لائیو سٹاک کے اہلکار بازاروں میں غیر معیاری گوشت کی فروخت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔مویشی پالنے والے بابا جان نے بتایا کہ پاوں اور منہ کی بیماری سے ہر سال سینکڑوں مویشی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ بیماری پر قابو پانے کے لیے کوئی موثر اقدامات نہیں کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ کسانوں کو مالی طور پر نقصان اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ ان کے مویشی ہر سال بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔مویشیوں کی ایک موثر ویکسینیشن پاوں اور منہ کی بیماری پر قابو پانے میں مدد کر سکتی ہے۔ جب بھی بیماری پھیلتی ہے تو ویکسین اتنی مہنگی ہو جاتی ہے کیونکہ منافع خور غریب کسانوں کا استحصال کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو جانوروں کی مناسب خوراک اور ویکسینیشن کی دستیابی کو یقینی بنانا چاہیے کیونکہ دودھ اور گائے کے گوشت کی مانگ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسان اکیلے اس شعبے کو فروغ نہیں دے سکتے۔انہوں نے تجویز دی کہ برآمدات میں اضافے کے لیے حکومت کو ڈیری مصنوعات کی پیداوار بڑھانے کے لیے ایک طریقہ کار متعارف کرانا چاہیے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی