صحت عامہ سے منسلک سماجی کارکنوں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کو دوگنا کرنے کے اپنے فیصلے پر ثابت قدم رہے۔یہ فیصلہ پاکستان کی مالی بدحالی کو دور کر سکتا ہے۔ جمعہ کو سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (سپارک) کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں صحت کے کارکنوں نے کہا کہ تمباکو مصنوعات پر ٹیکس کی شرح میں حالیہ اضافے سے 60 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا بشرطیکہ حکومت تمباکو کی صنعت کی غلط معلومات پر مبنی مہم سے گمراہ نہ ہو۔کمپین فار ٹوبیکو فری کڈز (سی ٹی ایف کے) کے کنٹری ہیڈ ملک عمران احمد نے کہا کہ تمباکو سے پیدا ہونے والی بیماریاں سالانہ 615 بلین کا معاشی بوجھ بنتی ہے جو پاکستان کی جی ڈی پی کا 1.6 فیصد ہے۔اگرچہ تمباکو کی صنعت زیادہ ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے ایک ہے لیکن تمباکو کی صنعت سے حاصل ہونے والی آمدنی صرف 120 ارب ہے۔ اس لیے صنعت یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے۔ایک ایسی صنعت جو لوگوں کی صحت اور مالیات کو اتنا شدید نقصان پہنچا رہی ہے، اسے یہ کارڈ استعمال نہیں کرنا چاہیے کہ اس پر ٹیکسوں کا 'بوجھ' پڑ رہا ہے۔
لہٰذا تمباکو کی صنعت کی طرف سے پھیلائی جانے والی غلط معلومات پر کان دھرنے کے بجائے سب کو حکومت کے اس فیصلے کو سراہنا چاہیے جو پاکستانیوں کی صحت اور معیشت کے مفاد میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو تمباکو کی مصنوعات کے حوالے سے ٹیکس میں اضافے کے فیصلے پر ثابت قدم ہونا چاہیے کیونکہ تمباکو پر موجودہ ٹیکس سے 60 ارب مزید ریونیو حاصل ہو سکتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ہمدردی حاصل کرنے کے لیے تمباکو کی صنعت جذباتی حربے استعمال کرتی ہے مثلاً غریب خاندانوں کا کفیل ہونے کا دعویٰ وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ تمباکو کی صنعت کی مہلک مصنوعات لوگوں کے قیمتی وسائل چھین رہی ہیں۔ اس وقت پاکستانی سگریٹ نوشی پر اپنی ماہانہ آمدنی کا اوسطاً 10 فیصد خرچ کرتے ہیں۔ لہٰذا، اس اضافے سے سگریٹ کم آمدنی والے شہریوں اور بچوں کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا اور وہ اس کے نقصانات سے بچ جائیں گے۔ پروگرام مینیجر (سپارک) خلیل احمد ڈوگر نے کہا کہ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت ایک تلخ حقیقت ہے تاہم اس کی شرح صنعت کے دعویٰ کردہ اعداد و شمار سے بہت کم ہے۔
یہ کمپنیاں اپنی پیداوار کو ٹیکس بچانے کے لیے کم ظاہر کرتی ہیں اور پھر اپنی غیر رپورٹ شدہ مصنوعات کو غیر قانونی مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔مزید برآں، غیر قانونی تجارت کوئی بہانہ نہیں ہے۔ تمباکو کی صنعت ایک مہلک اور غیر ضروری مصنوعات بنا رہی ہے۔ نتیجتاً، اسے ٹیکس ادا کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کا فروری میں ایف ای ڈی میں اضافہ ایک اچھا قدم ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کو چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے ٹیکسوں میں اضافہ کرے تاکہ مہنگائی اور فی کس آمدنی میں اضافے کی وجہ سے سیگرٹ کی خرید آسان نہ ہو سکے اور پاکستانی عوام تمباکو کی مصنوعات کے نقصانات سے محفوظ رہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی