پاکستان کے زرعی شعبے کو غیر رسمی بیج کے شعبے پر زیادہ انحصار کی وجہ سے ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے جو کسانوں کی اکثریت کو مختلف فصلوں کی کم معیار اور غیر منظم اقسام فراہم کرتا ہے۔ اس سے ملک میں کاشتکاری کی پیداواریت، منافع اور پائیداری پر اثر پڑتا ہے۔" بیجوں کے ناقص معیار کا واضح مسئلہ پاکستانی زراعت کو مفلوج کر رہا ہے۔ سب پار بیج سب پار فصلوں کا باعث بنتے ہیںجس کے نتیجے میں کسانوں کی کم پیداوار اور آمدنی ہوتی ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت پر منحصر ہے، کم پیداواری صلاحیت کا یہ چکر بہت تشویشناک ہے ۔نیشنل ایگریکلچر ریسرچ سینٹر اسلام آباد کے ایک سینئر سائنسی افسر بلال اقبال نے ویلتھ پاک کو بتایا کہ بیج کی صنعت ایک اہم جزو ہے۔ جدید زراعت نے عالمی سطح پر غیر معمولی ترقی دیکھی ہے۔ بہت سے ممالک میں نئی اور زیادہ پیداوار دینے والی فصلوں کی اقسام پھیلی ہیں، جس سے زرعی پیداوار میں بہتری آئی ہے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کسانوں کی 62 فیصد بیج کی ضرورت غیر رسمی شعبے سے پوری ہوتی ہے۔ غیر رسمی سیکٹر میں سیڈ کمپنیاں، سرکاری اور پرائیویٹ بریڈرز، سیڈ ڈیلر اور بڑے کسان شامل ہیں۔ وہ نہ صرف مختلف فصلوں کی اپنی اقسام تیار کرتے ہیں بلکہ منظور شدہ اقسام کے بیج بھی تیار کرتے ہیں۔ اکثر ان کے پاس افزائش کا بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے جس میں بنیادی سے لے کر جدید تک ہوتا ہے اور ان کی مارکیٹ میں نمایاں موجودگی ہوتی ہے۔ پاکستان کی بیجوں کی صنعت نے رسد اور طلب کے ضمنی مسائل کی وجہ سے عالمی بیج کی صنعت کی ترقی کے ساتھ رفتار برقرار نہیں رکھی۔
ملک ایسے بیج تیار کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے جو مقامی چیلنجوں جیسے کہ بدلتے ہوئے موسمی حالات، کیڑوں اور بیماریوں کا مقابلہ کر سکیں۔ا پاکستانی کسانوں کو فصلوں کی کم پیداوار اور معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نئی اور زیادہ پیداوار دینے والی اقسام کی ترقی کے لیے تحقیق و ترقی کے لیے انسانی اور مالی وسائل کی کمی ہے۔ اس نے انتہائی ضروری سرمائے، مہارت اور جدت طرازی کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے جو کہ عالمی سیڈ کمپنیاں لا سکتی ہیں۔ اس کے برعکس، مضبوط قانونی فریم ورک رکھنے والے ممالک نے اپنے کسانوں کو معیاری بیج تیار کرنے اور تقسیم کرنے کے لیے ان کارپوریشنوں کی مہارت اور وسائل سے فائدہ اٹھایا ہے۔ سائنسدان نے کہا کہ ان چیلنجوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے پاکستانی کسان، غیر رسمی بیج کا شعبہ، جو اکثر محدود مہارت اور وسائل کے حامل ڈیلروں پر منحصر ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ناقابلِ بھروسہ، غیر معیاری بیجوں کی خریداری ہوتی ہے۔ یہ مسلسل کم پیداوار، مالی نقصانات اور بعض صورتوں میں خوراک کی عدم تحفظ کا باعث بنتا ہے۔ان اہم مسائل کو حل کرنے کے لیے اور پیداوار کے مسلسل نقصانات کے رجحان کو ریورس کرنے کے لیے، انہوں نے کہا کہ پاکستان کو متعدد حکمت عملیوں پر غور کرنا چاہیے۔ پاکستان کے منفرد زرعی موسمی حالات کے مطابق فصلوں کی اقسام تیار کرنے کے لیے تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری میں اضافے کی فوری ضرورت ہے۔ مزید برآں، ملک کو ملٹی نیشنل سیڈ کمپنیوں کو پاکستان کی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دینے کے لیے اپنے قانونی فریم ورک کی ترقی کو تیز کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اپنے کسانوں کو اعلی معیار کے بیجوں سے بااختیار بنا سکتا ہے، زرعی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے، اور اس کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی