پاکستان اکانومی واچ کے چئیرمین برگیڈئیر(ر) محمد اسلم خان نے کہا ہے کہ زرعی شعبے کی حالت زار کبھی صنعت معیشت اور برامدات کو ترقی نہیں کرنے دے گی۔اس شعبہ کی بدحالی سے جہاں کاشتکار متاثر ہو رہے ہیں وہیں زرعی اشیاء مہنگی ہو رہی ہیں، غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، فوڈ سیکورٹی کی صورتحال مخدوش ہو رہی ہے اور زرعی درامدات کا امپورٹ بل بڑھ رہا ہے۔محمد اسلم خان نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ پندرہ سال سے اس شعبہ کی ترقی 2.2 فیصد سے 2.6 فیصد رہی ہے جو انتہائی کم ہے جبکہ اس دوران آبادی اور صنعتی شعبہ کی طلب میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔انھوں نے کہا کہ گندم مکئی کپاس گنااور چاول سب سے زیادہ اگائی جانے والی فصلیں ہیں اور یہ سب سے زیادہ پانی اور سرمایہ بھی ہڑپ کر جاتی ہیں مگر گزشتہ دو دہائیوں میں انکی پیداوار میں صرف 1.1 فیصد اضافہ ہوا ہے جو مذاق ہے۔اس شعبہ کی بدحالی میں اشرافیہ کا کردار اہم ہے جبکہ دیگر مسائل میں حکومت کی غلط پالیسیاں، موسمیاتی تبدیلی، سرمایہ کاری کی کمی، غیر معیاری بیج، جعلی زرعی ادویہ، مہنگی گھاد اور قرضوں کا نہ ملنا شامل ہیں۔اس کے علاوہ ریسرچ نہ ہونا ، قدیمی طریقے اور بعض دیگر مسائل بھی ہیں۔اسلم خان نے کہا کہ ان حالات کی وجہ سے کاشتکار مسلسل بد حال ہو رہے ہیںاور انکی پیداوار گر رہی ہے جسکی وجہ سے زرعی اشیاء کی درامد کرنا پڑ رہی ہیں اوراگر اس شعبہ کو اسی طرح نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس کا امپورٹ بل جلد ہی ایندھن کے امپورٹ بل کے برابر پہنچ سکتا ہے جسکی ادائیگی پاکستان کے بس کی بات نہیں جبکہ غربت میں اضافہ اور فوڑ سیکورٹی کی صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ان مسائل کا حل جدید ٹیکنالوجی اپنانے اور نجی شعبہ کی سرمایہ کاری میں مضمر ہے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاستدان اور بیوروکریسی ہیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی