اسٹیٹ بینک کو مزید مہنگائی کم کرنے کے لیے شرح سود 15 فیصد پر برقرار رکھنے کی ضرورت،بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا پالیسی موقف درست ،قومی معیشت کو سیلاب کی صورت میں شدید جھٹکے کا سامنا، مہنگائی کاطوفان آگیا،شرح سود میں مزید اضافہ کرنا پڑے گا، معیشت آہستہ آہستہ جمود کی طرف بڑھنے لگی، مہنگائی کو روکنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی ہی واحد عملی ذریعہ ۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مزید مہنگائی کے خطرے کو کم کرنے کے لیے مختصر مدت کے لیے شرح سود کو 15 فیصد پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ذریعہ موجودہ مانیٹری پالیسی کی شرح 15فیصد پرموجود ہے جومعیشت کو استحکام دینے، مجموعی طلب کو کم کرنے اور مہنگائی کو کم کرنے کے لیے برقرار رکھی گئی ہے۔ انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کے مانیٹری پالیسی کے ماہر شمریز بھٹی کے مطابق مہنگائی اور شرح سود کے میکرو اکنامک تھیوری کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا پالیسی موقف درست ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت ہماری معیشت کو سیلاب کی صورت میں ایک شدید جھٹکے کا سامنا ہے جس سے مہنگائی کاطوفان آگیا ہے۔ شمریز بھٹی نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسٹیٹ بینک کا کام مزید مشکل ہو جائے گا کیونکہ اسے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں مزید اضافہ کرنا پڑے گااور ہماری افراط زر کی شرح پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔ شرح سود میں اضافے سے پیداواری سرگرمیاں رکنے کا خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر شرح سود موجودہ 15 فیصد کی سطح سے زیادہ بڑھائی جاتی ہے توہماری معیشت آہستہ آہستہ جمود کی طرف بڑھے گی جہاں ہمیں بلند قیمتیں اور پیداوارکی کمی نظر آتی ہے۔
تاہم انہوں نے آئی ایم ایف کی رپورٹ سے اتفاق کیا کہ مہنگائی کو کنٹرول کرنے یا اسے کم کرنے کے لیے شرح سود کو 15 فیصد کی موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب سے کوویڈ 19 کے جھٹکے کے بعد معیشت کھلنا شروع ہوئی ہے پاکستان میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مانیٹری پالیسی کمیٹی نے بینچ مارک پالیسی ریٹ میں مسلسل اضافہ کیا ہیتاکہ بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکا جا سکے۔ اسی سلسلے میںآئی ایم ایف نے "توسیع شدہ فنڈ سہولت کے تحت توسیعی انتظام کے تحت ساتویں اور آٹھویں جائزے" کے عنوان سے رپورٹ میں مختلف سفارشات کا خاکہ پیش کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ درمیانی مدت میں افراط زر کا ہدف 7فیصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی مانیٹری پالیسی حکام کو اسی سخت طرز عمل پر عمل کرنا ہو گا جس کی پیروی 80 کی دہائی میں پال وولکر نے امریکہ میں کی تھی ااورپوری دہائی میںپال وولکر نے بطور وفاقی ریزرو چیئرمین معیشت پر سخت مالیاتی گرفت جاری رکھی۔ 70 کی دہائی کے آخر اور 80 کی دہائی کے اوائل میں مہنگائی کو روکنے کے لیے پال وولکر نے وفاقی فنڈز کی شرح کو زیادہ سے زیادہ 20فیصدتک بڑھا دیاتھاجس سے اسے تین سالوں میں مہنگائی کی شرح تقریبا 15 فیصد کی بلند ترین سطح سے 3 فیصد تک کم کرنے میں مدد ملی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی کو روکنے کے لیے سخت مالیاتی پالیسی ہی واحد عملی ذریعہ ہے جو حکام کے پاس دستیاب ہے اورمہنگائی کو کم کرنے کے لیے اسے لازمی استعمال کیا جانا چاہیے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی