ڈھانچہ جاتی مسائل پاکستان میں افراط زر کے دبا وکو بڑھا رہے ہیں۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق افراط زر نومبر 2023 میں 29.2 فیصد ہو گیا جو پچھلے مہینے میں 26.8 فیصد تھا۔ گزشتہ سال نومبر (2022) میں یہ 23.8 فیصد تھا۔پاکستان اپنے معاشی منظر نامے میں ایک نازک موڑ پر ہے، جہاں افراط زر کی شرح خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ صورتحال کو مزید خراب کرنے والے اندرونی ساختی مسائل کو پہچاننے اور ان سے نمٹنے کے لیے پائیدار حل ضروری ہے ۔ ایس ڈی جی سپورٹ یونٹ کے چیف اکانومسٹ، منسٹری آف پلاننگ ڈویلپمنٹ اور خصوصی اقدامات علی کمال نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہاکہ درآمدات، خاص طور پر تیل جیسی ضروری اشیا ، معیشت کو عالمی قیمتوں میں اتار چڑھاو کا شکار بناتی ہے۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے ضروری درآمدات کے ذرائع کو متنوع بنانا اور ملکی پیداوار پر توجہ مرکوز کرنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔انہوں نے مزید کہاکہ ریگولیٹری میکانزم کا کردار موثر منڈیاں ایک صحت مند معیشت کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ پاکستان کو ذخیرہ اندوزی، قیاس آرائیوں اور سپلائی چین سے نمٹنے کے لیے مضبوط ریگولیٹری فریم ورک کی ضرورت ہے۔ موثر نگرانی کے بغیرمارکیٹ کی بگاڑ مہنگائی کے دبا ومیں اضافہ کرتی رہے گی۔انہوں نے ان ساختی مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع اقتصادی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ پالیسی مداخلتیں جو درآمدات پر انحصار کم کرنے، توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے اور مارکیٹ کی کارکردگی کو بڑھانے پر مرکوز ہیں، معیشت پر مہنگائی کے دباو کو کم کرنے کے لیے اہم سمجھی جاتی ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان نے پاکستان کی مہنگائی کی پریشانیوں کا ازالہ کے عنوان سے گول میز مباحثے میں پاکستان کی مہنگائی کے مسئلے پر خطاب کیا اور کہا کہ جب کہ پاکستان میں عام طور پر افراط زر کی شرح 6فیصدسے 7فیصدکے لگ بھگ ہے، حالیہ برسوں میںیہ غیر معمولی سطح پر پہنچ گئی ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ہول سیل اور ریٹیل مارکیٹ میں قیمتوں کے فرق کی وجہ سے مڈل مین کے کنٹرول کا افراط زر پر خاصا اثر پڑتا ہے۔ انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کی حبا زیدی نے کہا کہ خوراک اور پیٹرولیم سمیت ہر شعبے میں زیادہ لاگت یا افراط زر کی مختلف وجوہات ہیں۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ غیر فعال منڈیوں کے ساتھ ساختی مسائل بھی تھے کیونکہ کھیت سے منڈی تک تباہ ہونے والی اشیا کا تقریبا 50 فیصد نقصان تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی