i معیشت

آئی ایم ایف صرف یہ چاہتی ہے کہ پیدا ہونے والی بجلی کی سو فیصد وصولی کو یقینی بنایا جائے اور لائن لاسز کو کم کیا جائیصدر ڈاکٹر خرم طارقتازترین

February 21, 2023

فیصل آباد چیمبر آ ف کامرس اینڈانڈسٹری کے صدر ڈاکٹر خرم طارق نے اس بات کی نفی کی ہے کہ انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ نے بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھانے کی ہدایت کی ہے۔ آج پاکستان ہوزری مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے دفتر میں ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف صرف یہ چاہتی ہے کہ پیدا ہونے والی بجلی کی سو فیصد وصولی کو یقینی بنایا جائے اور لائن لاسز کو کم کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت پاور سیکٹر کی 1ٹریلین کی ریکوری نہیں ہورہی جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم جب بھی یہ مسئلہ اٹھاتے ہیں تو ہمیں جواب دیا جاتا ہے کہ یہ پولیٹیکل اکانومی ہے اور اس طرح چوری ہونے والی بجلی اور لائن لاسز کو بل دینے والوں سے زبردستی وصول کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ 7ماہ کے دوران 380ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی جو اس سال کے اختتام تک بڑھ کر 520ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ انہوں نے نیپرا کی سالانہ رپورٹ کے حوالے سے بتایا کہ فیسکو کے لائن لاسز صرف 10فیصد جبکہ پسکو کے لاسز 38فیصد ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ برآمدی شعبہ کو اس وقت بجلی 20روپے میں پڑ رہی ہے جو بڑھ کر 40روپے فی یونٹ ہو جائے گی۔ اسی طرح سندھ کو گیس 4.5ڈالر میں مل رہی ہے جبکہ پنجاب کو یہی گیس 9ڈالر میں دی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جب اس مسئلہ کو اٹھایا جاتا ہے تو حکام بالا اٹھارہویں ترمیم کی بات کرتے ہیں حالانکہ اس کا تعلق گیس کے استعمال کے حق پر ہے نہ کہ اس کی قیمت میں کمی سے ۔

انہوں نے بتایاکہ اس سلسلہ میں سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے گردشی قرضہ کو ختم کرنے کیلئے یکساں ریٹس کی سمری منظورکی مگر کابینہ اس پر حتمی فیصلہ نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ بجلی اور گیس کی طرح برآمد کنندگان کو مالیاتی خسارے کا بھی سامنا ہے کیونکہ حکومت نے سیل ٹیکس کی شرح 17-18فیصد کر دی ہے اور اس کے ری فنڈ بھی ادا نہیں کئے جارہے۔ انہوں نے بتایا کہ ستمبر کے ری فنڈ نہیں ملے جو 4ارب کے ہیں۔ اسی طرح ڈی ایل ٹی ایل کے بھی ری فنڈ پھنسے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے برآمد کنندگان کا ورکنگ کیپٹل بتدریج کم ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ منظم طریقے سے انڈسٹری کو بند کیا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلاشبہ ان میں کچھ مسئلے نئے اور کچھ پرانے ہیں مگر اصل بات مینجمنٹ اور گورننس کی ہے۔ پاکستان ہوزری مینو فیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئرمین محمد امجد خواجہ نے کہا کہ ملک کا صنعتی شعبہ مسلسل بحرانوں کا شکار ہے۔

حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان حالیہ مذاکرات کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ توانائی بحران ، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ اور غیر یقینی ایکسچینج ریٹ نے برآمدی شعبہ کی بقا ء کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس سلسلہ میں ہم ہر دروازہ کھٹکھٹا چکے ہیں مگر تاحال حکومت ٹس سے مس نہیں ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت بھی بہت سے یونٹ پچاس فیصد سے بھی کم کی استعداد کار پر چل رہے ہیں جبکہ مہنگائی نے مزدوروں کیلئے بھی جینا مشکل بنا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اُن کے مزدور اُن کے کاروباری خاندان کا حصہ ہیں اور وہ اُن کے مسائل اور مصائب سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اس لئے وہ بھی اُن کے احتجاج میں شریک ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان سبسڈی نہیں چاہتے ۔ ہم علاقائی ملکوں سے مساوی توانائی کے ریٹ چاہتے ہیں جن پر حکومت پہلے سے ہی عمل کر رہی تھی مگر اب آئی ایم ایف سے 1.5ار ب ڈالر کی قسط کیلئے اس سہولت کو ختم کیا جا رہا ہے جو سونے کا انڈہ دینے والی مرغی کو ذبح کرنے کے مترادف ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت سیاسی معاملات میں بری طرح الجھ چکی ہے اور اُسے عوام کے اصل مسائل کا سرے سے ادراک ہی نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کی تبدیلی سے قبل پاکستان کی برآمدات 32ارب ڈالر تھیں جس میں ٹیکسٹائل کا حصہ 24ارب ڈالر تھا۔ مگر بدقسمتی سے اب 24ارب ڈالر کا حصہ کم ہو کر 19.05رہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گارمنٹ کا شعبہ جو تیزی سے ترقی کر رہا تھا اب اس کی گروتھ بھی منفی ہوگئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ملک اور برآمد کنندگان کو بندگلی میں دھکیل رہی ہے۔ آل پاکستان بیڈ شیٹس اینڈ اپ ہولسٹری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین عارف احسان ملک نے کہا کہ ہر حکومت اپنے برآمدی سیکٹر کو مراعات دیتی ہے۔ انڈیا، چین ، بنگلہ دیش، کمبوڈیا اور ویتنام ہمارے تجارتی حریف ہیں۔ اُن سے مقابلہ کرنے کیلئے ہمارے لئے علاقائی طور پر رائج توانائی ٹیرف ضروری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ برآمدات میں سالانہ 15فیصد کی کمی ہو رہی ہے جس سے صنعتکاروں کے ساتھ ساتھ مزدور بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت متعدد ادارے 40فیصد کی کیپسٹی پر چل رہے ہیں اور اگر توانائی کے نرخوں میں اضافہ کیا گیا تو 75فیصد ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں 50فیصد بلیک یا غیر دستاویزی معیشت ہے اور جو ٹیکس دے رہے ہیں اُن پر ہی مزید بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیاکہ وزیر تجارت فوراً استعفیٰ دیں اور اگر وزارت خزانہ کی طرف سے بات چیت کی پیشکش ہو تو گفت و شنید کی جائے ورنہ پر امن احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا جائے گا۔ تقریب سے میاں کاشف ضیاء ، سابق چیئرمین پی ایچ ایم اے میاں فرخ اقبال اور سید ضیاء علمدار حسین نے بھی خطاب کیا۔ آخر میں سوال و جواب کی بھی نشست ہوئی جس کے دوران تمام شرکاء نے آئندہ ہفتے احتجاج اور دھرنے کی تجویز کی مکمل تائید کی اور کہا کہ وہ اس میں اپنے مزدوروں کے ہمراہ شرکت کریں گے۔ اس موقع پر رانا الطاف احمد، چوہدری محسن، حاضر خاں، خواجہ عثمان اور دیگر ممبران بھی موجود تھے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی