پاکستان اکانومی واچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرسیف الدین شیخ نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس ایک ہزار ارب ڈالر سے زیادہ کا سرمایہ موجود ہے مگر یہ ادارہ مشکلات میں پھنسے ہوئے بہت سے غریب ممالک کو مسلسل نظر انداز کر رہا ہے جس سے اسکی ساکھ اور اثر رسوخ متاثرہ ہو رہا ہے۔ایک سے تین ارب ڈالر مانگنے والے ممالک کو نظر انداز کرنے سے اس ادارے پر اعتماد میں کمی آ رہی ہے۔سیف الدین شیخ نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ آئی ایم ایف کے قرضوں کی شرائط بھی موسم کی طرح بدلتی رہتی ہیں اور اسے عالمی مالیاتی فنڈ کے بجائے مغربی مالیاتی فنڈ کہنا درست ہو گا کیونکہ اسکی توجہ کا محور مغربی ممالک ہیں۔انھوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت اکیس ممالک ادائیگیوں کی شدید بحران میں پھنسے ہوئے ہیں جنکی کوئی مدد نہیں کی جا رہی ہے۔کئی ممالک آئی ایم ایف سے مایوسی ہو کر قرضوں کے لئے چین کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
اس وقت پینسٹھ ممالک کو اپنے بیرونی قرض کا پندرہ فیصد چین کو واپس کرنا ہے جبکہ پاکستان کے تیس فیصد بیرونی قرضے چین سے لئے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کبھی بھی غریب ممالک پر مراعات یافتہ طبقے پر ٹیکس بڑھانے کے لئے دبائو نہیں ڈالتا بلکہ اسکی ساری پالیسیوں سے عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔ اس ادارے کے پروگرام میں رہنے والے کسی ملک کا ترقی کرنا بہت مشکل ہے اسی لئے اس سے مدد لینے والے ممالک کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے اور کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک وہ ایسی اصلاحات اور پالیسیوں کو نافذ نہیں کرتا جس سے اسکی معیشت اتنی سنبھل جائے کہ اسے آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کی ضرورت نہ رہے۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی