i معیشت

رواں مالی سال پاکستان کا ٹیکس ہدف 74 کھرب روپے ،غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانے کی ضرورتتازترین

August 03, 2022

رواں مالی سال پاکستان کا ٹیکس ہدف 74 کھرب روپے ،محصولات میں اضافے اور اخراجات میں کمی کیلئے بنیادی اصلاحات اور ٹیکس نظام میں خامیاں دور کرنے کی ضرورت،ملک کے جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکس وصولی کی شرح انتہائی کم،جی ایس ٹی میں اضافے سے مہنگائی بڑھے گی،غیر رسمی معیشت کو دستاویزی بنانے کی ضرورت۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق حکومت کوٹیکس نظام میں خامیوں اور ٹیکس کی غیر موثر شرح کے مسائل کو حل کر نا چاہیے تاکہ محصولات میں اضافہ ہو اور اخراجات پورے کیے جاسکیں۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید نے ویلتھ پاک سے گفتگو میں کہا کہ کم ٹیکس وصولیاںنہ صرف پاکستان بلکہ دیگر ترقی پذیر ممالک کے لیے بھی ایک مسئلہ ہے۔ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے 74 کھرب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے جو ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے کم تناسب کی وجہ سے ملک کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے کافی ہے۔ ٹیکس ٹوجی ڈی پی کا کم تناسب اکثر غیر موثر ٹیکس شرحوں، کم ٹیکس کی بنیاد یا غیر موثر ٹیکس نظام کے نفاذ کی وجہ سے سامنے آتا ہے۔ ہمیں پاکستان کے معاملے میں ان تمام پہلووں پر کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ٹیکس وصولی کو بہتر بنایا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ جب حکومت ٹیکس میں اضافہ کرے گی اور سیلز ٹیکس بڑھایا جائے گا تو اس سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جس سے طلب میں کمی آئے گی ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں سیلز ٹیکس جیسے فلیٹ ٹیکس ریٹ لگانے کے بجائے ٹیکس کی شرح طے کرنے سے پہلے مصنوعات کی لچک کو جانچنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسوں میں اضافے کے نتیجے میں قیمتوں میں اضافہ صارفین کی قوت خرید کو متاثر کرتا ہے۔ جب حکومت انکمٹیکس میں اضافہ کرتی ہے تو اس سے ٹیکس دہندگان کی آمدنی میں کمی آتی ہے اور جب سیلز ٹیکس بڑھایا جاتا ہے تو قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ جب خرید و فروخت نہیں ہو گی تو ٹیکس وصولی کیسے ہو گی۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے کہا کہ ٹیکس کی موثر شرح طلب اور کھپت کو نقصان نہیں پہنچاتی، جبکہ غیر موثر ٹیکس کی شرح عوام کی خالص آمدنی اور قوت خرید کو بری طرح متاثر کرتی ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ انکم ٹیکس کی شرح کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی قوت خرید کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ آبادی کے مختلف طبقات کی آمدنی کی سطح مختلف ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ٹیکس کی موثر شرح کا مقصد نہ صرف آمدنی میں اضافہ کرنا ہے بلکہ آمدنی کی مساوی تقسیم کو یقینی بنانا،

معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینا اور روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے۔ اس سے سرمایہ کاری اور پیداوار کی لاگت متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو صرف تنخواہ دار طبقے کے بجائے دوسرے شعبوں پر توجہ دینے اور انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کی آمدنی متعدد ذرائع سے ہوتی ہے اور کرائے کے کاروبار کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک بڑی غیر رسمی معیشت ہے جو ٹیکس کی کم بنیاد کی وجہ ہے۔ معیشت کودستاویزی بنانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت غیر رسمی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے کم ٹیکس کی شرح متعارف کر سکتی ہے کیونکہ بہت سے کاروبار بہت اچھا منافع کما رہے ہیں لیکن وہ واجب الادا ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کو معیشت کے غیر رسمی شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایک جامع مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ تمباکو، ٹرانسپورٹ، بیکرز، فوڈ چینز، ہوٹل، ریٹیل بزنس اور دیگر شعبوں میں ٹیکس کے حوالے سے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکس میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہاوسنگ سوسائٹیز، سٹاک مارکیٹ اور منی مارکیٹ سے بھی ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر عبدالرشید نے مشورہ دیا کہ جو کاروباری ادارے ماحول دوست نہیں ہیں انہیں اضافی ٹیکس ادا کرنے کا پابند ہونا چاہیے اس سے نہ صرف ٹیکس ریونیو میں اضافہ ہوگا بلکہ ماحولیات کا تحفظ بھی ہوگا۔ ممکنہ شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے سخت اور نرم اقدامات کر سکتا ہے۔

 

کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی