دوحہ(شِنہوا)اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی نمائندوں نے دوحہ میں دو روزہ اجلاس کے بعد افغانستان سےمتعلق تشویش کے بعض اہم معاملات پر اتفاق رائے حاصل کر لیا ہے، تاہم رکاوٹیں اب بھی باقی ہیں۔
گوتریس نے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’’ہم ایک ایسے افغانستان کے خواہاں ہیں جس کے اندر امن قائم ہو،وہ اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن سے رہے اور ایک خودمختار ریاست کے طور پر اپنے وعدوں اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو نبھانے کے قابل ہو۔‘‘
تاہم، گوتریس نے اس بات کواجاگرکیا کہ افغانستان کے معاملے پر ڈیڈ لاک کے خاتمے کے لیے کچھ رکاوٹوں کو حل کرنا تاحال ضروری ہے۔
ا نکا کہنا تھا ایک طرف، "افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہے جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہیں کیاجا رہا اور بہت سے پہلوؤں سے اسے عالمی اداروں اور عالمی معیشت میں شمار نہیں کیا جاتا۔"
دوسری طرف،بین الاقومی سطح پر یہ تاثرعام ہے کہ ملک میں انسانی حقوق، خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کی صورت حال انہتائی خراب ہے۔
گوتریس نے کہا کہ عالمی برادری اور افغان حکام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ایک مشترکہ لائحہ عمل تیار کیا جانا چاہیے۔
گوتریس کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں چین، روس اور امریکہ سمیت 20 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندےشریک ہوئے تاہم افغانستان کے عبوری حکمران طالبان نے شرکت نہیں کی۔
اقوام متحدہ کے سربراہ کے مطابق طالبان حکام کی جانب سے اجلاس میں شرکت کے لیے عائدکردہ شرائط قابل قبول نہیں تھیں۔
انہوں نے کہا "ان شرائط کے تحت سب سے پہلے ہمیں افغان معاشرے کے دیگر نمائندوں سے بات کرنے کے حق سے انکار کیا گیا اور ایک ایسے سلوک کا مطالبہ کیا گیا جو بڑی حد تک افغانستان کوتسلیم کرنے کے مترادف تھا۔"