بیجنگ (شِنہوا) چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے کہا ہے کہ سمندر جاپان کا ذاتی گٹر نہیں بلکہ انسانیت کا مشترکہ مفاد ہے اور جوہری آلودہ پانی کو سمندر میں پھینکنا انتہائی خود غرض اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔
جاپانی میڈیا کے مطابق ٹوکیو الیکٹرک پاور کمپنی (ٹیپکو) کی جانب سے حال ہی میں جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق مئی میں فوکوشیما دائیچی جوہری پاور پلانٹ کی بندرگاہ سے پکڑی گئی بلیک راک فش میں ریڈیو ایکٹو عنصر سی ایس-137 حفاظتی سطح سے کہیں زیادہ 18 ہزار بی کیو فی کلو گرام تک پہنچ گیا جو جاپان کے فوڈ سیفٹی قانون میں مقرر کردہ معیار سے 180 گنا زیادہ ہے۔
جاپانی حکومت نے بار بار فوکوشیما دائیچی جوہری پاور پلانٹ سے جوہری آلودہ پانی کے اخراج کو سفید کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ دعوی کیا ہے کہ پانی بے ضرر ہے اور اس کے اخراج کو جائز اور اسے واحد آپشن قرار دیا ہے۔ وانگ نے رپورٹ کے جواب میں ایک نیوز بریفنگ میں کہا کہ اس کے باوجود حقائق کچھ اور ثابت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری میں بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ اگر جوہری آلودہ پانی واقعی اتنا ہی محفوظ ہے جتنا جاپان کہتا ہے تو جاپان اسے اپنی اندرونی جھیلوں میں کیوں نہیں چھوڑتا۔ جاپان نے ڈسچارج ٹنل کی تعمیر پر کیوں اصرار کیا اور بے تابی سے اسے لانچ کیا؟
وانگ نے مزید کہا کہ جاپان کی اپنی ماہرین کی کمیٹی کا جواب بالکل سادہ ہے۔ سمندر میں پانی چھوڑنا سب سے سستا آپشن ہے جس سے خود جاپان کو آلودہ کرنے کا کم سے کم خطرہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی خود غرضی اور غیر ذمہ دارانہ عمل ہے کہ پوری دنیا کو اس کی قیمت برداشت کرنے دی جائے اور خود جاپان کے لیے پیسہ بچایا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ سمندر انسانیت کی مشترکہ بھلائی ہے نہ کہ جاپان کا ذاتی گٹر۔ انہوں نے کہا کہ پانی کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے جاپان کے پاس واضح طور پر دیگر آپشنز موجود ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ جاپان کی وزارت معیشت، تجارت اور صنعت نے پانچ تجاویز پیش کیں اور ہمسایہ ممالک کے ماہرین نے طویل مدتی اسٹوریج جیسے محفوظ اور زیادہ دانشمندانہ منصوبے تجویز کیے۔