نانجنگ(شِنہوا)پاکستانی نوجوان حافظ محمد وقاص چین کے مشرقی صوبے جیانگ سوکی کشادہ شاہراہوں پربغیر ڈارئیور گاڑی میں بیٹھ کر بہت پرجوش تھا۔
یہ اس کے لیے ایک سائنس فکشن فلم کے منظرجیسا تھا جس سے ٹیکنالوجی کے حوالے سے اسکا جوش وجذبہ دوآتشہ ہوگیا۔
وقاص اپنی تعلیم کو آگے جاری رکھنے کے لیے 2016 میں چین آیاجہاں وہ ملک کی ہائی ٹیک صنعتوں کی تیزرفتار ترقی سے بہت متاثرہوا ۔ ٹیکنالوجی سے اس لگاو کی وجہ سے اس نے الیکٹرانک انفارمیشن انجینئرنگ میں بیچلر کی ڈگری حاصل جس کے بعد بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا ،31سالہ وقاص اس وقت نانجنگ یونیورسٹی آف پوسٹس اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن میں انفارمیشن کمیونیکیشن انجینئرنگ میں ایک اور ماسٹر ڈگری کررہے ہیں۔
حافظ وقاص کا کہنا ہے کہ ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے لیے وہ ہمیشہ سے پرجوش رہے ہیں،اور دوسری ماسٹر ڈگری کے ذریعے وہ اس شعبہ کو مزید گہرائی سے جان سکیں گے۔
وقاص مصنوعی ذہانت، وائرلیس کمیونیکیشن اور5جی ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیش رفت میں طویل عرصے سے دلچسپی لے رہے ہیں۔ یونیورسٹی دورمیں تحقیقی منصوبوں میں مشغول رہتے ہوئے، اس نے وائرلیس کمیونیکیشن ٹیکنالوجی پرخصوصی توجہ دی ۔
جیانگسو کے ووشی سٹی کے حالیہ سفر کے دوران، وقاص شہر کی شاہراہوں پر بغیر پائلٹ منی بسوں کی بڑی تعداد دیکھ کرحیرت زدہ رہ گئے۔
اس نے بتایا کہ خود کارڈرائیونگ اورسینسنگ ٹیکنالوجی کے استعمال کا مطالعہ ان کے شعبے سے متعلقہ ہے جس سے ان کی دلچسپی میں اضافہ ہوا۔پہلے میں نے صرف چین میں انٹیلی جینٹ گاڑیوں کی ٹیکنالوجی کے تیزرفتار استعمال کے بارے سنا تھا، لیکن ایسی گاڑیوں میں خود سفر کرناایک بالکل مختلف چیز ہے۔
وقاص کا خیال ہے کہ خود کارڈرائیونگ روزانہ کی بنیاد پرجدید سے جدید ہونے والی ایک نئی صنعت ہے ۔ یہ بہت دلچسپ ہے اوراگر موقع ملا تو گریجویشن کے بعد اس میں شامل ہوجاوں گا اس میں ترقی کی بڑی صلاحیت موجود ہے جو ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں انقلاب لا سکتی ہے۔ ووشی جسے چین میں "کیپٹل آف انٹرنیٹ آف تھنگز" کہا جاتا ہے، گاڑیوں کی نیٹ ورکنگ انڈسٹری میں ترقی کرنے والا سب سے پہلا شہر ہے جہاں گاڑیوں کے نیٹ ورکنگ کے لیے قومی سطح کا پہلا پائلٹ زون ہے۔ 2023 تک، شہر میں اس شعبے میں 2ہزار179 پیٹنٹ درخواستیں جمع کرائی گئیں اور 2025 کے آخر تک 200 مزید درخواستوں کی توقع ہے ۔وقاص نے بتایا کہ وہیکل نیٹ ورکنگ انڈسٹری میں ووشی کی اہمیت چین کی نئی معیاری پیداواری قوتوں کو استعمال کرنے کے عزم کو واضح کرتی ہے۔ یہ اختراعات ہائی ٹیک اور گرین ٹیکنالوجیز پرخصوصی توجہ کا نتیجہ ہے جن کا انہوں نے مشاہدہ کیا ہے۔ وقاص کا کہنا تھا کہ یہ جدید ٹیکنالوجیز زندگی میں زیادہ سے زیادہ آسانیاں پیدا کررہی ہیں،مثال کے طور پر، اس سے پہلے، چین میں کیو آرکوڈز یا الیکٹرانک ادائیگی کا نظام نہیں تھاتاہم، جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے، لوگ اب نقد رقم کے بغیر خریداری کر سکتے ہیں، جو ایک معیاری انقلاب کی علامت ہے۔
پاکستانی طالبعلم نے چین میں مختلف صنعتوں میں تکنیکی انقلابات سے آںے والی تبدیلیوں کا بھی مشاہدہ کیاجن میں آلودگی پیدا کرنے والے روایتی ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کو آہستہ آہستہ ماحول دوست اور اقتصادی طور پر قابل عمل نئی توانائی والی گاڑیوں سے تبدیل کیا جا رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اب چین میں لوگ آسانی سے گھر بیٹھ کر گاڑی کوبک کراسکتے ہیں،دنیا بھر سے سامان خرید سکتے ہیں، اور یہ سب تکنیکی جدت کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ وقاص نے کہا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے چینی وژن سے بہت پرجوش ہیں۔ ہائی ٹیک اور گرین ٹیکنالوجیز کے لیے ملک کی وابستگی آگے بڑھنے کی سوچ کو ظاہر کرتی ہے، جو افراد کے لیے تبدیلی میں حصہ ڈالنے کے لیے دلچسپ مواقع پیش کرتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور سی پیک کے ساتھ، چین اور پاکستان اسمارٹ شہروں کی تعمیر کے لیے مصنوعی ذہانت جیسی ٹیکنالوجیز سے فائدہ اٹھانے کے لیے تعاون کر رہے ہیں۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کی جدت میں چین پاکستان تعاون کے حوالے سے ہونے والے ایک فورم کے دوران، چین میں پاکستان کے سابق سفیر معین الحق نے دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں تعاون اور تعلیمی تحقیقی اداروں اورٹیک انٹرپرائزز کے درمیان مواصلاتی ذرائع کی ضرورت پر زور دیا۔ وقاص کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں، چین پاکستان کی ٹیکنالوجی کی ترقی میں فعال طور پر مدد کر رہا ہے، جس سے پاکستان کو مزید تکنیکی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ "مثال کے طور پر، چینی ٹیکنالوجی کی مدد سے، پاکستان نے اپنے قمری تحقیقاتی سیٹلائٹ کو کامیابی سے لانچ کیاہے۔
وقاص نے کہا کہ چین پاکستان کا ایک اچھا دوست ہے، اور اسے یقین ہے کہ چین کی مدد سے مستقبل میں پاکستان میں مزید جدید ٹیکنالوجیز کو بروئے کارلایا جائے گا۔
دونوں ممالک کے نوجوانوں میں سائنس وٹیکنالوجی تبادلوں میں مزید بہتری کی امید ظاہرکرتے ہوئے وقاص نے کہا کہ وہ پاکستان میں خود کارڈرائیونگ جیسی ٹیکنالوجیز کو لانے کی خواہش کے ساتھ، علم اور جدید ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے سخت محنت جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ان توقعات پرپورا اتر کر یقین ہے کہ وہ چین اورپاکستان کے درمیان تکنیکی تبادلوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اپنے خواب کوشرمندہ تعبیر کریں گے۔