• Dublin, United States
  • |
  • May, 22nd, 24

شِنہوا پاکستان سروس

جذبہ کبھی ختم نہیں ہوتا ، پاکستانی لیجنڈ ٹینس کھلاڑیوں کا ایشین گیمز کا سفرتازترین

September 30, 2023

ہانگ ژو(شِنہوا) ایشین گیمزکے ٹینس کورٹ میں، کھلاڑیوں نے ہر مقابلے میں فائنل میں جگہ بنانے کے لیے سخت مقابلہ کیا۔ 43 سالہ عقیل خان نے اپنے ساتھی اعصام الحق قریشی کے ساتھ اپنے آخری ایشین گیمزمیں حصہ لیا۔ہانگ ژو ایشین گیمزعقیل خان کے ساتویں اور قریشی کے تیسرے ایشین گیمز تھے۔

وہ کورٹ کے مقبول کھلاڑی نہیں اور نہ ہی چیمپئن شپ جیتنے کے لیے فیورٹ ہیں۔ اس لیے زیادہ تر میچز ٹینس سنٹر میں چھوٹے مقامات پر منعقد کیے جاتے ہیں۔ بہت کم لوگ ان کی طرف توجہ دیتے ہیں، اور صرف مٹھی بھر تماشائی ہی کھیل دیکھنے آتے ہیں۔

ایک دوسرے کو پسند کرنے والے دونوں کھلاڑی 25 سال سے ایک ساتھ ٹینس کھیل رہے ہیں۔ 1998 میں، تھائی لینڈ کے شہر بنکاک میں ہونے والے ایشین گیمز میں دونوں پہلی بار ایک ساتھ کھیلے تھےجب ان کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ عقیل خان تب سے اب تک ہر ایشین گیمز میں حصہ لے رہے ہیں  ۔ اب، چالیس کی دہائی میں، ان کی گھنی داڑھی میں سفید بال واضح طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔

اعصام الحق قریشی نے اپنے ہی ساتھی کھلاڑی کے حوالے سے کہا کہ یہ پاکستان کے ایک لیجنڈ ہیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے لوگ انھیں جانتے ہیں۔ ایشین گیمز میں حصہ لینے کا یہ ہمارا آخری موقع ہے۔ ہم ابھی تک ڈٹے رہے اور صرف پاکستان کے لیے تمغہ جیتنا چاہتے تھے۔

عقیل خان کا کہنا تھا کہ اعصام الحق اور میں بہت اچھے دوست ہیں۔ ہم نے 25 سال سے زیادہ عرصے سے ایک ساتھ ڈیوس کپ کھیلا ہے۔ اس بار ہم نے اپنے آخری ایشین گیمز میں شرکت کے لیے ایک ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ شروع سے آخر تک، ہم ایشیائی گیمز کو ایک دوسرے کے لیے یادگار بنانا چاہتے تھے۔

اپنے والد کے زیر اثر عقیل خان کا ٹینس سے تعلق قائم ہوا ۔ تاہم، پہلے وہ اس کھیل کو سمجھ نہیں پائے تھے اور نہ اسے پسند  کرتے تھے .عقیل خان نے کہا کہ  "جب میں چھوٹا تھا، میرے والد نے مجھے ٹینس کورٹ میں کیڈی بننے کے لیے کہا، لیکن میں وہاں بالکل نہیں جانا چاہتا تھا۔اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ مجھے  کیڈی نہیں بننا، میں نے ٹینس کی پریکٹس شروع کردی۔"

اعصام الحق قریشی کا تعلق ایک ٹینس فیملی سے ہے، ان کے دادا اور والدہ دونوں ٹینس کے کھلاڑی ہیں، اور ان کے چچا اور کزن سبھی ڈیوس کپ ٹینس ٹورنامنٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ اپنے خاندانی ماحول سے متاثر ہو کر، اس نے 6 سال کی عمر میں ٹینس کھیلنا شروع کر دیا۔ وہ 2010 کے یو ایس اوپن کے مینز ڈبلز اور مکسڈ ڈبلز میں رنر اپ رہے، اور ومبلڈن اور فرنچ اوپن ڈبلز میں کئی بار سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔ ہانگژو ایشین گیمز میں اس نے اپنی کزن اشنا سہیل کے ساتھ مکسڈ ڈبلز مقابلے میں بھی حصہ لیا۔

مقابلوں میں شرکت کے علاوہ اعصام الحق پاکستان میں ٹینس کی ترقی کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے امن کو فروغ دینے اور ٹینس کے ذریعے پسماندہ لوگوں کی مدد کرنے کے لیے  ٹینس چیریٹی کی بنیاد رکھی ۔ اس کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ ٹینس کا کھیل نوجوانوں اور بزرگوں کی زندگیوں میں خوشی لا سکتا ہے۔

اشنا سہیل نے کہا کہ "میں نے اپنے کزن سے متاثر ہوکر ٹینس کھیلنا  شروع کیا ۔ پیشہ ور کھلاڑی بننا مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں ٹینس مقبول نہیں ہے، لیکن اعصام  کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس کھیل کے بارے میں سیکھا۔ اب بہت سے نوجوان اس میں شامل ہو رہے ہیں۔"

چین کے شہر ہانگژو میں  ایشین گیمز میں مکسڈ ڈبلز ٹینس کے دوسرے راؤنڈ میں پاکستان کے اعصام الحق قریشی اپنی ساتھی کھلاڑی  اشنا سہیل سے ہاتھ ملاتے ہوئے۔

ستمبر 2022 میں، اعصام قریشی نے مزید نوجوان ٹینس کھلاڑیوں کی تربیت اور رہنمائی کے لیے عقیل خان کے ساتھ اے سی ای اکیڈمی قائم کی۔

ایشین گیمز میں عقیل خان کے آخری گیم کا سکور "6-0، 6-0"، تھا مکسڈ ڈبلز میں سیڈ ٹیم کا سامنا کرتے ہوئے وہ بے بس نظر آئے۔

عقیل خان نے کہا کہ "ہاں، یہ میرا ایشین گیمز کا آخری کھیل  تھا ۔  افسوس کی بات ہے کہ ہم نے کوئی مقابلہ نہیں جیتا اور یہ اس طرح ختم ہوا، لیکن میں ٹینس سکھاتا رہوں گا۔ شاید میں اگلے ایشین گیمز میں ٹینس کی کوچنگ کروں۔"

عقیل خان کی طرح اعصام  قریشی بھی شکست کے بعد قدرے مایوس نظر آئے۔قریشی نے کہا کہ "ہم فتح کے بہت قریب تھے، لیکن بدقسمتی سے، حتمی فتح ہماری نہیں ہوئی اور میڈل جیتنے کی ہماری خواہش ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔"

اگرچہ ایشین گیمز ختم ہو چکے ہیں لیکن دونوں کھلاڑیوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں ٹینس کی ترقی کے لیے پرعزم رہیں گے۔ وہ 14سے 18 سال عمر کے نوجوان کھلاڑیوں کو تربیت دیں گے۔انہوں نے کہا کہ"ہم اپنا تجربہ ان کے ساتھ شیئر کریں گے۔ امید ہے کہ نوجوان نسل ٹینس کو اتنا ہی پسند کرے گی جتنا ہم کرتے ہیں۔ ہم قدم بہ قدم محنت کریں گے۔"

ان کے دلوں میں خواب اب بھی زندہ ہیں۔ محبت ہمیشہ قائم  رہتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ مستقبل میں کہیں بھی جائیں، ان کے خواب پورے ہوئے ہیں۔