اقوام متحدہ (شِنہوا) اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ (یونیسف) کی ایک رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک بچہ پانی کی زیادہ یا بہت زیادہ کمی کے شکار علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔
"موسمیاتی تبدیلی کا بچہ" کے نام سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کم ہوتی ہوئی پانی کی دستیابی اور پینے کے پانی اور صفائی کی ناکافی سہولیات کا دوہرا بوجھ اس چیلنج کو بڑھا رہا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان حالات نے پہلے سے مشکلات کا شکار73کروڑ90لاکھ بچوں کو اور بھی زیادہ خطرے میں ڈال دیا ہے۔
یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتائج بچوں کے لیے تباہ کن ہیں۔ ان کے جسم اور دماغ آلودہ ہوا، ناقص غذائیت اور شدید گرمی کے مقابلے کے لیے کمزور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف بچوں کی دنیا بدل رہی ہے ، پانی کے ذرائع خشک ہونے اور خوفناک موسمی واقعات کے وقت کے ساتھ ساتھ شدید اور زیادہ بار بار ہونے سے بچوں کی فلاح و بہبود پر اثر پڑ رہا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے، انہوں نے کہا کہ بچے تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن ان کی ضروریات کو اکثر اوقات نظر انداز کیا جاتا ہے۔
رپورٹ میں دیگر حالات کی مںظر کشی بھی کی گئی ہے جن میں بچوں کو موسمیاتی بحران کے اثرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جن میں بیماریاں، فضائی آلودگی اورسیلاب اور خشک سالی شدید موسمی واقعات شامل ہیں ۔ لڑکپن سے بالغ ہونے تک، بچوں کے دماغ، پھیپھڑوں، مدافعتی نظام اور دیگر اہم افعال کی صحت اور نشوونما اس ماحول سے متاثر ہوتی ہے جس میں وہ بڑے ہوتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بچے بڑوں کی نسبت فضائی آلودگی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں ۔ عام طور پر وہ بالغوں کے مقابلے میں تیزی سے سانس لیتے ہیں اور ان کے دماغ، پھیپھڑے اور دیگر اعضاء اب بھی نشوونما پا رہے ہیں۔
رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ افراد سب صحارا افریقہ، وسطی اور جنوبی ایشیا اور مشرقی و جنوب مشرقی ایشیا میں کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔
اس میں کہا گیا ہے کہ 2022 میں 43کروڑ60لاکھ بچے ایسے علاقوں میں رہتے تھے جہاں پانی کی شدید کمی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں نائجر، اردن، برکینا فاسو، یمن، چاڈ اور نمیبیا شامل ہیں۔