گوجرانوالہ (شِنہوا) ضلع گوجرانوالہ میں پکانے کا تیل نکالنے والی مشین کے مالک عرفان جاوید نے کاروبار میں اس وقت تیزی دیکھی جب تازہ کٹائی کردہ چینی کینولا کی فصل مارکیٹ میں آئی اور صارفین بیجوں سے تیل نکالنے کے لیے ان کی دکان پر جمع ہوگئے۔
جاوید نے شِنہوا کو بتایا کہ "ابتدائی طور پر صرف چینی کینولا لگانے والے کسانوں نے یہاں کا دورہ کیا تھا لیکن آہستہ آہستہ یہ تعداد اس وقت بڑھ گئی جب لوگوں کے اچھے تاثرات کے سبب اس کے صحت مند اور کم لاگت ہونے کے بارے میں معلوم ہوا۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان کی گوادر بندرگاہ کو چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود اختیارخطے میں کاشغر سے ملانے والی راہداری ہے جس کا آغاز 2013 میں ہوا تھا۔ اس کے پہلے مرحلے میں توانائی، نقل و حمل اور صنعتی تعاون اجا گر ہوا جبکہ نئے مرحلے میں زراعت اور ذریعہ معاش سمیت دیگر شعبوں میں توسیع کی گئی ہے۔
زرعی شعبے میں سی پیک کے تعاون کا اعادہ کرتے ہوئے چینی کمپنی ووہان چھنگ فا ہی شینگ سیڈ کمپنی لمیٹڈ اور پاکستانی کمپنی ایویول گروپ نے 2022 میں پاکستان میں چینی ہائبرڈ کینولا اور خوردنی تیل کی ایک قسم تیار کرنے کے لئے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے تھے۔
اس کا مقصد درآمد شدہ پکانے کے تیل پر پاکستان کا انحصار کم کرنا تھا جس سے نہ صرف ملک کو خوردنی تیل کی طلب کو پورا کرنے میں مدد ملی بلکہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بھی سہارا ملا ہے۔
اب لوگ کسانوں سے براہ راست چینی تیل دار اجناس خریدتے ہیں اور جاوید سے اس کا تیل تیار کرواتے ہیں۔ لوگ اس تیل کو کھانا پکانے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس کا ذائقہ عام طور پر گھروں میں استعمال ہونے والے خوردنی تیل سے ملتا جلتا ہے۔
مزید براں، جاوید خود تیل نکالنے اور صارفین کی بڑھتی تعداد کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بیج حاصل کرتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مقامی مارکیٹ میں دستیاب دیگر تیل دار اجناس کی نسبت چینی تیل دار اجناس میں تیل کی مقدار زیادہ ہے جسے لوگ ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اس میں انہیں بچت ہوتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دیگر اقسام کے تیل دار اجناس کے 40 کلو گرام تھیلے سے صرف 10 سے 12 لیٹر تیل نکالا جاتا ہے جبکہ مارکیٹ میں 9 ہزار 500 روپے (تقریباً 33 امریکی ڈالر) میں دستیاب چینی کینولا بیگ 14 سے 16 لیٹر تیل اور مویشیوں کے لیے تقریباً 20 کلو انتہائی غذائیت سے بھرپور کینولا خوراک تیار کرتا ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت 4 ہزار روپے ہے۔ یہ ایک باہمی فائدے کا سودا ہے۔
پاکستان میں پکانے کے تیل کی سالانہ کھپت تقریباً 50 لاکھ ٹن ہے تاہم مقامی منڈی میں تیل دار اجناس کی کم معاشی صلاحیت کے سبب کاشتکاروں کی جانب سے انہیں ترجیح نہیں دی جاتی۔ ملک کو تیل کی طلب کو پورا کرنے کے لیے تقریباً 89 فیصد تیل درآمد کرنا پڑتا ہے جس پر سالانہ 3.6 ارب ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔
تیل دار اجناس کی تقسیم سے وابستہ اداروں کے مطابق نئی متعارف کردہ قسم کاشتکاروں کے لیے زیادہ منافع بخش ہے اور اسی سبب یہ پاکستان میں متعارف کرانے کے ساتھ ہی صرف 2 برس کے دوران مقامی کاشتکاروں میں مقبول ہوگئی ہے۔