گوانگ ژو/ تائی یوآن (شِنہوا) چین میں زیر تعلیم محمد حارث زیب نے ہزاروں چینی شہریوں کے ساتھ ٹیمپل فئیر(مندر میلہ) میں روایتی لالٹین تہوار منایا۔5فروری کو منا یا جا نے والا تہوار ان کی زندگی کا ناقابل فراموش لمحہ بن گیا۔سات روزہ مندر میلہ چین کے جنوبی علاقوں میں سب سے زیادہ متاثر کن لوک ثقافتی سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ اس تہوار کے دوران ثقافتی پر فارمنسز ، ٹیلنٹ شوز، غیر مادی ثقافتی ورثے کی تقریبات، بازار، اور ایک نمائشی تھیٹر سمیت 100 سے زائد سرگرمیاں شامل ہیں۔ جنان یونیورسٹی میں بائیو میڈیکل انجینئرنگ میں تعلیم حاصل کرنے والے حارث نے کہا کہ میں نے پہلی بار اتنی بڑ ی تقریب میں مختلف ثقافتی مظاہرے دیکھے ہیں۔میں چین کی متنوع اور گہری ثقافت سے بہت متاثر ہوں۔ چین کے لوگ اس تہوار کے لیے زبردست جوش و خروش کا مظاہرہ کرتے ہیں اور میں نے اس موقع لوگوں کو پر بہت اخراجات کرتے دیکھا ہے۔جوں ہی رات شروع ہوتی ہے تو چین کے شمالی صوبہ شنشی کے دارالحکومت تائی یوآن کے مرکز میں واقع ژونگلو اسٹریٹ روشن ہو جاتی ہے ۔ ڈھول کی تاپ پر شیروں کے رقص اور دیگر روایتی چینی پرفارمنس پر لوگ تالیاں بجا کر خوش ہوتے ہیں۔ان میں ایک پاکستانی دانیا زمان بھی شامل تھی۔ گزشتہ تین برسوں سے چین سے دور رہنے والی یہ طالبہ خاصی پرجوش تھی۔ گلیوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے اس نے بہت سی تصاویر بنائیں اور اپنے خاندان کو بھیجیں۔دانیا نے کہا میری تو قعات کے مطا بق چین اب بھی جاندار اور گہما گہمی سے بھرپور ہیاور ایسا لگتا ہے کہ میں تو یہاں سے کبھی گئی ہی نہ تھی ۔
دانیا نے شنشی میڈیکل یونیورسٹی میں طبی ادویات کی تعلیم حاصل کی ہے۔سال 2020 کے اوائل میں وہ پاکستان واپس آگئی تھی ۔اس کے بعد چین کی جا نب سے گزشتہ سال کے آخر میں نوول کرونا وائرس کی روک تھام کے ردعمل اور امیگریشن پالیسی کو بہتر بنائے جا نے کے بعد وہ رواں فروری میں چین واپس آئی ہے ۔اس طالبہ نے کہا کہ یونیورسٹی نے چین واپسی کے سفر کے دوران میری بہت مدد کی ہیجس کی وجہ سے میری ویزا کی درخواست میں آسانی ہوئی ہے۔ طالبہ نے کہاکہ داخلے کا طریقہ کار بھی آسان تھا اور یہ صرف آدھے گھنٹے میں مکمل ہو گیا تھا۔ اسے سب سے زیادہ خوشی اس بات پر ہوئی کہ وہ لالٹین تہوار کے وقت یہاں پر تھی ۔ وہ کیمپس میں واپس آ تے ہی فوری طور پر تقریبات کے لیے ژونگلو اسٹریٹ پر پہنچ گئی۔انہوں نے کہا کہ میں نے پہلی مرتبہ تہوار میں شرکت کی۔ لالٹین کی پہیلیوں کو حل کرنے، لالٹین تقریبات اور دیگر سرگرمیوں سے مجھے محسوس ہوا کہ چین کے لوگ روایتی ثقافت کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔صرف 3 سال کے دوران تائی یوآن میں ہونے والی تبدیلیوں نے اس پاکستانی طالبہ کو حیران کر دیا ہے ۔ شہر کے وسط میں مو جود ژونگلو اسٹریٹ میں لالٹین تہوار منایا جاتا تھا۔تین برس قبل یہاں ایک عام سی تجارتی گلی تھی۔ لیکن اب یہ شہر کے مقبول علاقوں میں سے ایک بن گئی ہے ۔یہاں رش کے اوقات میں روزانہ 2 لاکھ سے زیادہ افراد کی آمدورفت ہوتی ہے۔دانیا نے کہا کہ تا ئی یوآن میں نقل و حمل میں بھی تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ تین سال بعد سب وے کھل گیا ہے۔ ہوائی اڈے کی توسیع ہوئی ہے اور یونیورسٹی ٹان اور شہری علاقے کے درمیان زیادہ بس لائنیں چل رہی ہیں۔دانیا نے کہا کہ چین نے بہت تیزی سے ترقی کی ہے اوریہاں زیادہ مواقع موجود ہیں۔ میرے والدین میری یہاں ر ہائش کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔مستقبل کے حوالے سیحارث کے پاس بھی ایک واضح منصوبہ موجودہے۔انہوں نے کہا کہ میں اپنی ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد چین میں ڈاکٹر کی ڈگری اور یہاں تک کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ ڈگری کے لیے درخواست دینا چاہتا ہوں۔