ہیفے (شِنہوا) چین کے مشرقی صوبہ انہوئی کے دارالحکومت ہیفے میں سبز روک تھام اور کنٹرول ٹیکنالوجی اور نئی زرعی اقسام کے بارے میں ایک بین الاقوامی زرعی تربیتی کورس کا آغاز ہوا ہے ۔
انہوئی اکیڈمی برائے زرعی سائنسز (اے اے اے ایس ) کے رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ اور انہوئی ہوا آن سیڈ انڈسٹری کمپنی لمیٹڈ کی مشترکہ میزبانی میں پیر کوشروع ہونے والے اس کورس نے چین، پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت، ویتنام، کینیا، روانڈا اور دیگر کے علاوہ 15 سے زائد ملکوں کے 200 سے زائد زرعی اسکالرز،ماہرین اورطلباء کو راغب کیا ہے۔
اس کورس کا اہتمام آن لائن اور آف لائن دونوں طریقوں سے کیا گیا ہے۔ اس تربیت کا مقصد بیلٹ اینڈ روڈ کے ساتھ واقع ملکوں میں اناج کی پیداوار اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینا اور ان ملکوں کے ساتھ چین کے سائنسی اور تکنیکی تعاون کو مستحکم بنانا ہے۔
دو روزہ تقریب کے دوران مختلف ملکوں کے زرعی ماہرین فصلوں کی افزائش، چاول کے بیج کی پیداواراورسبز پیداواری ٹیکنالوجی جیسے مختلف موضوعات پر رپورٹس پیش کریں گے۔
اس وقت انہوئی اکیڈمی برائے زرعی سائنسز کے رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ تحقیق کرنے والے محمد احمد حسن نے کہا کہ پاکستان اور چین کو عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خشک سالی اور سیلاب جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔
چین ، ہیفے میں واقع انہوئی اکیڈمی برائے زرعی سائنسز(اے اے اے ایس )کے رائس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں بین الاقوامی زرعی تربیت کو ایک تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔(شِنہوا)
ہم شدید موسموں کے خلاف مزاحمت کرنے والے چاول کی نئی اقسام تیار کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں اور میں اس تعاون میں ایک پل کا کردار ادا کرنے کی امید کرتا ہوں ۔
کورس کے تقریباً 100 شرکاء کا تعلق پاکستان سے ہےجن میں سے متعدد چین بھر کی مختلف یونیورسٹیز میں زراعت کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
چاول عالمی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔ چین چاول پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملکوں میں سے ایک ہے اور اس کا چاول کے بیج کا شعبہ تحقیق اور ٹیکنالوجی میں سب سے آگے ہے۔
انتظامی کمیٹی کے مطابق کئی برسوں سے چین کی چاول کی پیداوار 20 کروڑ ٹن سے زیادہ ہےجو دنیا میں پہلے نمبر پر ہے اور عالمی بھوک کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔