بیجنگ(شِنہوا) چین نے بعض جاپانی سیاستدانوں کے تائیوان کے دورے اور ان کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کا معاملہ جاپان کے ساتھ بھرپورطور سے اٹھایا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وین بن نے ان خیالات کا اظہار منگل کو پریس بریفنگ میں اس سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کیا، ایک جاپانی قانون ساز کے مطابق جس نے لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کے نائب صدر اور جاپان کے سابق وزیر اعظم تارو آسو کے ساتھ تائیوان کا دورہ کیا نے بتایا کہ آسو نے تائیوان میں اپنے بیان جاپانی حکومت کے ساتھ پیشگی جنگ کی تیاریوں اور ڈیٹرنس پر تبادلہ خیال اور یہ کہ یہ بیان جاپان کا باضابطہ موقف ہے۔
اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ تائیوان کا مسئلہ خالصتاً چین کا اندرونی معاملہ ہے جس میں کسی بیرونی مداخلت کی گنجائش نہیں ، وانگ نے کہا کہ تائیوان چین کا حصہ ہے۔
وانگ نے بتایا کہ 1943 میں چین، امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے جاری کردہ قاہرہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا تھا کہ تائیوان اور جاپان کی جانب سے چین سے چھینے گۓ دیگر تمام علاقے چین کو واپس کر دیے جائیں گے۔ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے ہتھیار ڈالنے کے اعلان کا آرٹیکل 8 اس کی تصدیق کرتا ہے۔ 1945 میں جاپان کی طرف سے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جاپان ہتھیار ڈالنےکے اعلان کو قبول کرتا ہے۔
1972 میں دستخط کیے جانے والے چین-جاپان مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ جاپانی حکومت چینی حکومت کے اس موقف کو پوری طرح سمجھتی ہے اور اس کا احترام کرتی ہے کہ تائیوان چین کی سرزمین کا ایک ناقابل تنسیخ حصہ ہے اور وہ ہتھیار ڈالنے کے اعلان کے آرٹیکل 8 کے ساتھ وابستگی کا اعلان کرتا ہے۔