اسلام آباد (شِنہوا)پاکستان کو اس وقت درپیش ماحولیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں کے سنگین مسائل کے تناظر میں چین کی ماحول دوست پالیسیوں کی سمت قابل ذکر منتقلی سے پاکستان کو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے تحت قابل تجدید توانائی کا ہدف حاصل کرنے میں مدد مل رہی ہے۔
ماہرین اور حکام نے "قابل تجدید توانائی اور سی پیک 2.0، آگے بڑھنے کی راہ " کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہا کہ پاکستان 2030 تک ملک کی 60 فیصد توانائی قابل تجدید وسائل سے پیدا کرنے کا خواہشمند ہے اور اس ضمن میں چین کا کردار اہم ہے۔
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک پاکستان چائنہ انسٹی ٹیوٹ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفی حیدر سید نے اپنے خطاب میں کہا کہ چین کا تجویز کردہ بی آر آئی عالمی ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے اور پائیدار ترقی کے اہداف میں پیشرفت کی مشترکہ کوششوں خاص کر عالمی جنوب میں ایک بڑا موقع فراہم کررہا ہے۔
مصطفی حیدر سید نے کہا کہ گزشتہ 3 عشروں کے دوران ملک میں کاربن اخراج میں 170 فیصد سے زائد اضافہ ہوا اور ماحولیاتی انحطاط اور موسمیاتی تبدیلی کے سبب مجموعی مقامی پیداوار کے نقصانات میں اضافہ ہوا ہے۔انہوں نے اس بات کو اجاگر کیا کہ چینی تجربے اور ٹیکنالوجی سے سیکھ کر لائحہ عمل اور ماحول دوست پالیسیاں بنانا ناگزیر ہے۔
چین میں سابق پاکستانی سفیر معین الحق نے کہا کہ ملک کے جنوب، مشرق اور شمال سے سڑکوں کا وسیع جال بچھانے کے علاوہ چین نے پانی ، سورج اور ہوا سے بجلی پیداواری پلانٹس تعمیر کرکے پاکستان کو 8 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے میں مدد دی جس میں صاف اور ماحول دوست توانائی بھی شامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک نے سی پیک (چین پاکستان اقتصادی راہداری) منصوبوں میں معاشی، سماجی اور مالی اور ماحولیاتی استحکام کو فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ جب پاکستان ماحول دوست منتقلی کی راہ پرگامزن ہے تو چین ہمارے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت پاکستان اور چین نے اس منصوبے میں تیسرے فریق کی شرکت پر بھی زور دیا جو آمدن، مہارت، اضافی سرمایہ اور دیگر ممالک سے حاصل جدید ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مفید ہو۔
گوادر کے ایک گھر میں محنت کش چین کا عطیہ کردہ سولر پینل نصب کررہے ہیں۔ (شِنہوا)
اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ کے چائنہ سٹڈی سینٹر کے سینئر مشیر حسن داؤد بٹ نے پاکستان ، چین اور دیگر متعلقہ عالمی شراکت داروں میں تعاون بڑھانے پر زور دیتے ہوئے قابل تجدید توانائی کو اپنانے کی سمت منتقلی کو تیز کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
بٹ نے کہا کہ پاکستان میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں نئے اقدامات، سرمایہ کاری اور تکنیکی ترقی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیئے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت، تعلیمی اداروں، صنعت اور سول سوسائٹی سمیت شراکت داروں کے درمیان معلومات کے تبادلے کا فروغ ضروری ہے تاکہ ماحولیاتی انتظام میں پیشرفت اور سی پیک فریم ورک میں پائیدار ترقی کی سمت ہمارے سفر کو تیز کرنے میں رکاوٹیں ، امکانات اور بہترین طریقے کی تلاش میں آسانی ہو۔
ماہرین نے سی پیک سے متعلق قابل تجدید توانائی منصوبوں میں جامع اور مساوی شرکت کے فروغ سے متعلق شراکت داری اور اتفاق رائے پیدا کرنے کے طریقہ کار کی حوصلہ افزائی پر بھی زور دیا۔