لندن (شِنہوا) برطانوی ہائی کورٹ نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی جانب سے جاسوسی کے الزام میں امریکہ حوالگی کے خلاف دائر اپیل پر 2 روزہ سماعت مکمل کرلی ہے تاہم ججز نے کہا ہے کہ فیصلہ بعد میں سنایا جائے گا۔
امریکہ کو مطلوب 52 سالہ اسانج پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک دہائی قبل وکی لیکس کے ذریعے افغانستان اور عراق جنگ بارے لاکھوں فوجی دستاویزات جاری کرکے قومی دفاعی معلومات افشا کئے تھے۔ اس میں اپاچی ہیلی کاپٹر کی ویڈیو فوٹیج بھی شامل ہے جس میں 2007 میں بغداد کی سڑکوں پر رائٹرز کے صحافیوں اور بچوں کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا واقعہ دکھایا گیا تھا۔
جولین اسانج سنہ 2019 سے جنوب مشرقی لندن کی انتہائی حفاظتی حصار کی بیلمارش جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل امریکی وکلا نے کہا تھا کہ اسے قید کی سزا پوری کرنے کے لئے اس کے آبائی ملک آسٹریلیا منتقل ہونے کی اجازت دی جائے۔
برطانیہ، لندن میں برطانوی ہائی کورٹ کے باہر جولین اسانج کے حامی جمع ہیں۔ (شِنہوا)
برطانیہ نے 2022 میں اس وقت کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کی سربراہی میں اسانج کی امریکہ کوحوالگی کی منظوری دیدی تھی جس کے بعد ایک جج نے ابتدائی طور پراسانج کی ذہنی صحت کو دیکھتے ہوئے ان کی امریکہ کو حوالگی کو روک دیا تھا۔
جولین اسانج بیماری کے سبب 2 روزہ سماعت سے غیر حاضر رہے۔ برطانوی ہائی کورٹ کے دو ججز وکٹوریہ شارپ اور جسٹس جانسن نے اسانج کی قانونی ٹیم اور امریکی حکومت کے نمائندہ وکلاء کے دلائل سنے۔
امریکی وکیل کلیئر ڈوبن نے سماعت کے دوران کہا کہ وکی لیکس کے بانی نے اندھا دھند اور جان بوجھ کر ان افراد کے نام دنیا کے پیش کر دیئے جنہوں نے امریکہ کو معلومات فراہم کی تھیں۔ دوسری جانب اسانج کے وکلاء نے 2021 میں وکی لیکس کے بانی کے اغوا یا قتل کی مبینہ امریکی سازش کا حوالہ بھی دیا۔