جوہانسبرگ (شِنہوا) ماہرین نے کہا ہے کہ برکس جامع پن کے ساتھ عالمی جنوب کی ایک آواز ہوکر بات کرسکتا اور اس عالمی عدم توازن کو دور کرسکتا ہے جو طویل عرصے سے دنیا کو پریشان کررہی ہے۔
جامعہ پریٹوریا کے گورڈن انسٹی ٹیوٹ آف بزنس سائنس کی پروفیسر فرحانہ فاروق نے شِںہوا کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ برکس پلس ممکنہ طور پر بہت زیادہ جامع ہے اور اس کا جامع پن کچھ سیاسی اقدار کی وجہ لوگوں کو خارج یا ختم نہیں کرتا ہے۔
حال ہی میں اختتام پذیر 15 ویں برکس سربراہ اجلاس میں 6 ممالک ارجنٹائن، مصر، ایتھوپیا، ایران، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو باضابطہ طور پر برکس میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
فاروق نے کہا کہ برکس دنیا کے مختلف خطوں کے ممالک کو مختلف اقدار کے باوجود قریب لاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برکس میں مختلف زبانیں، ثقافتیں اور کام کے طریقے ہیں۔ یہ وہ مختلف چیزیں ہیں جو سوچنے اور دنیا دیکھنے کا نیا نقطہ نگاہ مہیا کرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کا ہم 2023 میں انتظار کررہے تھے۔
پرائیویٹ سیکٹر ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن کے چیئرپرسن یوسف ڈوڈیا نے شِںہوا کو بتایا کہ برکس ان ممالک کو ایک موقع فراہم کرتا ہے جو موجودہ عالمی تجارتی اور مالیاتی نظام میں بہتری چاہتے ہیں کیونکہ یہ چھوٹی اور کمزور ترقی پذیر معیشتوں کو کمزور کررہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم دنیا کو تلاش کا ایک موقع دیتے یہ ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کا ایک زیادہ منصفانہ طریقہ کار ہے جو چھوٹے ممالک کو ترقی کی اجازت دیتا ہے۔
انہیں یقین ہے کہ برکس اس دنیا میں عدم توازن دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جہاں ممالک کو مساوی عالمی نظام پر زور دینے کی ضرورت ہے۔
افریقن ٹائمز کی ایڈیٹر ان چیف ماہاشا ریم پیڈی کے مطابق اس طرح کی تبدیلی باہمی طور پر فائدہ مند ہے۔ افریقی عوام مغربی ممالک کی نسبت چین پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں اور سچ کہوں یہ صرف افریقی نہیں ہیں جو ایسا کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح عالمی جنوب اب زیادہ محفوظ محسوس کرتا ہے کیونکہ برکس اور چین عالمی سطح پر تیزی سے نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سے بات سے قطع نظر کہ کوئی ملک کتنا بڑا یا چھوٹا ہے ایک بار جب آپ چین سے شراکت داری کرتے ہیں۔ تو آپ کے ساتھ برابری کا رویہ رکھا جاتا ہے۔