اسلام آباد(شِنہوا) ماہر اقتصادیات وقار احمد نے کہا ہے کہ چین کا مجوزہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ (بی آر آئی) گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو ایک دوسرے سے جڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
شِنہوا کو ایک حالیہ انٹرویو میں سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے جوائنٹ ایگزیکٹو ڈائریکٹر وقار احمد نے کہاکہ ہم نے دیکھا ہے کہ چین خود برسوں اور دہائیوں کی غربت سے باہر نکل آیا ہے اور وہ ایک ایسے ملک میں تبدیل ہوا ہے جو تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس لیے چین کے لیے ترقی پذیر ممالک کے لیے پروگرام وضع کرنا گلوبل نارتھ کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین بی آر آئی کے تحت یہی کرنے کےلیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بی آر آئی ،تعاون کے لیے خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک بہت ہی سنجیدہ ماڈل ہے،کیونکہ بہت سے پروگرامز کی قیادت ترقی پذیر ممالک اور دنیا کے کچھ غریب ترین ممالک کررہے ہیں۔
وقار احمد نے کہا کہ اس وجہ سے بی آر آئی روایتی ترقیاتی پروگراموں کی طرح نہیں بلکہ ایک ایسا ماڈل ہے جس میں دو طرفہ، کثیر جہتی عطیہ دہندگان شامل ہوں گے جو آئیں گے اور اپنے مسائل کی تشخیص کریں گے اور پھر وہ آپ کو ایک پلیٹر یا انتخابی سیٹ پیش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ لیکن یہ وہ طریقہ نہیں جس طرح بی آر آئی،یا اس کے چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فلیگ شپ پروجیکٹ نے کام کیا ہے۔
2013 میں شروع کردہ سی پیک ایک راہداری ہے جو پاکستان کی جنوب مغربی گوادر کی بندرگاہ کو چین کے شمال مغربی سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے میں کاشغر سے جوڑتی ہے، جو توانائی، ٹرانسپورٹ اور صنعتی تعاون کو نمایاں کرتی ہے۔
ماہر اقتصادیات نے مزید کہا کہ بی آر آئی میں یا سی پیک کے معاملے میں ممالک سے ترجیحات پیش کرنے کا کہاگیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں؟ آپ چینی سرمایہ کاری کہاں چاہتے ہیں؟ آپ کسے ترجیح دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی آر آئی کے زیادہ تر تکنیکی معاونت کے منصوبوں کو، بنیادی ڈھانچے کے معاملے میں، مالیاتی ماڈل کی حمایت حاصل ہے، جس میں ترقی پذیر ممالک کے لیے حصہ لینا آسان ہے، کیونکہ ان میں سے زیادہ تر سرمایہ کاری کے موڈ میں ہیں۔