• Dublin, United States
  • |
  • May, 19th, 24

شِنہوا پاکستان سروس

بھائی چارہ اور امدادباہمی -- ایک پاکستانی دوست کی چین میں جنگل کی آگ بھجانے کے لیے انتھک کوششتازترین

September 02, 2022

چھونگ چھنگ(شِنہوا) چین کی جنوب مغربی چھونگ چھنگ میونسپلٹی کے ضلع بیبیی میں گزشتہ دنوں جنگل میں لگنے والی آگ بجھانے میں بڑی تعداد میں رضاکاروں نے حصہ لیا۔آگ بجھانے کے دوران ایک پاکستانی نوجوان سب لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا جس نے آگ بجھانے کا سامان لے جانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

  عمر محمود نامی پاکستانی ساؤتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے کالج آف ایگرونومی اینڈ بائیو ٹیکنالوجی میں ڈاکٹریٹ کرنے کے بعد ریسرچ کا کام کررہے ہیں۔ 

عمر نے کہا کہ اس کاجن یون پہاڑ کے ساتھ خاص لگاو ہے وہ یہاں تقریباً چار سال سے مقیم ہیں اوربعض اوقات وہ ہائیکنگ کے لیے اس پہاڑ پر جاتے ہیں،پہاڑ پر جنگل میں آگ لگنے  کی خبر سن کرانہیں پریشانی ہوئی۔23اگست کو میرے کچھ دوست آگ بجھانے کے لئے جارہے  تھے ،ان کے کہنے پر میں بھی ان کے ساتھ پہاڑپر آگ بجھانے کی کوششوں میں شامل ہوگیا۔

عمر کے کالج کے ایک ساتھی لوہوئی شیانگ نے کہا کہ جن یون پہاڑ سے ہماری شدید وابستگی ہے، کالج آف ایگرونومی کے طلباء کے لیے فوجی اورعلمی تربیت اسی جگہ پر کی جاتی ہے،جو بالکل دوسرے کیمپس کی طرح ہے۔

 رضاکاروں کی بھرتی کے لیے  ٹیلی فون کی لائنیں ہمیشہ مصروف رہتی تھیں کیونکہ بہت سے لوگ آگ پر قابو پانے کی کوششوں میں شریک ہوناچاہتے ہیں۔ عمر اور اس کے دوستوں کو گاڑی کے ذریعے  شیما کے علاقے جانا پڑا، جہاں آگ کی شدت سب سے زیادہ تھی ۔اگرچہ وہ  فرنٹ لائن پر پہنچ گئے تھے لیکن انہیں قطار میں کھڑا ہونا پڑا کیونکہ سینکڑوں رضاکار انتظار کر رہے تھے۔

آخر کار، انہیں بیبیی  ایریا آفس ایجنسی میں آگ بجھانے کا سامان جیسے پانی، خوراک اور آگ بجھانے کے آلات لے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ انہوں نے صرف دوپہر کو تھوڑا سا کھانا کھایا  لیکن وہ چھ گھنٹے تک کام کرتے رہے۔ فرنٹ لائن پر آگ کی شدت کی وجہ سے سامان بہت جلدی استعمال ہوگیا ان کے انتھک کام کی وجہ سے فرنٹ لائن پراآگ بجھانے کا کام مسلسل جاری رہا۔

اس موقع کو یاد کرتے ہوئے عمر نے کہا کہ انہوں نے دیکھا کہ  تمام چینی آگ بجھانے میں آگے آگے تھے،وہ کچھ بھی کرنا چاہتے تھے اور انہیں اپنی پرواہ نہیں تھی۔ہر شخص یہی کہ رہا تھا کہ وہ ٹھیک ہے،وہ سب اس علاقے کو بچانے کے لیے ایک تھے۔

  ایک پاکستانی دوست کی موجودگی نے دوسرے رضاکاروں کو بھی حوصلہ دیا۔ 

  عمر کے ایک دوست، فان یونگ ہائی نے بتایا کہ جب لوگوں کو پتہ چلتا کہ عمر کا تعلق پاکستان سے ہے تو وہ اس سے ملتے وقت ہیلو کی بجائے شکریہ کہتے۔انگریزی نہ جاننے والے لوگ ہاتھ کے اشارے سے اس کی ہمت افزائی کرتے۔اس طرح چینیوں نے عمر کا شکریہ ادا کیا۔

عمر کے ایک دوست کا کہنا ہے کہ عمر نے ہمیں بتایا کہ اس کا وطن ایک بار قدرتی آفات کا شکار ہوا تھا۔ چھونگ چھنگ میں جنگل کی آگ نے عمر کواس وقت کی یاد دلادی،شاید یہی ایک وجہ ہے کہ اس نے سخت جان فشانی سے آگ بجھانے کا کام کیا۔

چین کے جنوب مغربی بلدیہ چھونگ چھنگ میں جنگلی آگ بجھانے کی کوششوں میں شامل پاکستانی رضا کار عمر محمود(بائیں سےپہلے) اپنے ساتھیوں کے ساتھ موجود ہے ۔(شِنہوا)

دوست کے مطابق عمر کا کہنا ہے کہ اگر کوئی یہاں چار یا پانچ سال رہتا ہے  ، تو حقیقت میں وہ چین کا ’’سفیر‘‘ بن جاتا ہے ، پھر وہ اپنے ملک واپس جا کر یہ بتائے گا کہ چینی کیسے اچھے لوگ  اور وہ تعلقات میں کیسے اچھے ہیں، میں نے چھونگ چھنگ کے رہائشیوں کے دوستانہ رویے کو محسوس کیا ہے، اس لیے میں یہاں آنے والی کسی بھی قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہوں۔

ساؤتھ ویسٹ یونیورسٹی کے پروفیسر لو کھن کا کہنا ہے کہ  عمر نے ایک پوسٹ ڈاکٹر کی حیثیت سے بہترین تحقیقی صلاحیتوں اور ذاتی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ آگ بجھانے کے دوران عمر کی جانب سے چین کے ساتھ مضبوط وابستگی کے حوالے سے لو نے کہا کہ یہ  چین اور پاکستان کے درمیان مضبوط دوستی کی وجہ سے  ہےجو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔

  مستقبل میں، عمر چھونگ چھنگ سے حاصل کردہ اپنے علم سے واپس  پاکستان جا کر  خدمت کرنا چاہتے ہیں، وہ چین اور پاکستان کے درمیان آہنی بھائی چارے پر زور دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ پاکستان اور چینی یونیورسٹیاں دوستی کو مزید فروغ دینے کے لیے مل کر کام کریں۔

بیبیی ڈسٹرکٹ میں وائلڈ فائر فرنٹ لائن ہیڈ کوارٹر کے مطابق  رضاکاروں کی کوششیں آگ بجھانے کے  کام میں مددگار ثابت ہوئیں اوربیبیی اور بشان اضلاع کے درمیان جنگل میں لگی آگ پر قابو پا لیا گیا ۔