بیجنگ(شِنہوا) برطانیہ کے ایک معروف اسکالر نے کہا ہے کہ تاریخ سے ثابت ہے کہ بحیرہ جنوبی چین کے متنازعہ مسئلے میں امریکہ ہی فساد کی جڑ ہے اور یہ کہ نانشا چھونداؤاور شیشا چھونداؤکے جزائر پرچینی خودمختاری کے دعووں کومغرب کی تاریخی دستاویزات میں قانونی جوازحاصل ہے۔
بین الاقوامی قانون کے برطانوی پروفیسر اینتھونی کارٹی نے برطانیہ، فرانس اور امریکہ کی تاریخی قانونی دستاویزپر تحقیق کے بعد مذکورہ بالا نتائج کو اپنی نئی شائع ہونے والی تصنیف" دی ہسٹری اینڈ سوورینٹی آف ساؤتھ چائنہ سی" میں تحریرکیا ہے۔
امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین کے پانیوں کو شورش زدہ کردیا:
شِنہوا نیٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کارٹی نے کہا کہ بحیرہ جنوبی چین میں تنازعات کو ہوا دینے کا اصل امریکی مقصد اپنی عالمی بالادستی اور برتری کو برقرار رکھناہے۔
سابق امریکی صدر آئزن ہاور کی تاریخی دستاویزات میں شامل اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان ڈلس کے آرکائیوز کا مطالعہ کرتے ہوئے کارٹی کو امریکی جنرل ڈگلس میک آرتھر اورسابق امریکی سفارتکار جارج کینن کے درمیان ہونے والی گفتگومیں بحیرہ جنوبی چین کے معاملے میں مداخلت کے امریکی عزائم کا پتہ چلا۔
کارٹی نے کہا وہ بنیادی طور پر جارج کینن کے اس اقدام پر متفق تھے کہ امریکہ کی مغربی سرحد کو چین کے مشرقی ساحل تک ہونا چاہیے۔
جنرل ڈگلس میک آرتھر نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ایشیا میں امریکی فوجی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا۔ جب کہ جارج کینن اعلیٰ امریکی سفارت کار تھے جس نے دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد سوویت یونین کو محدود کرنے کا نظریہ پیش کیاتھا۔
مشرقی ایشیا کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کے بارے ایک سوال پر کارٹی نے کہا کہ یہ 19ویں صدی کے آغاز سے ہی امریکی نظریہ رہا ہے کہ اسے دوسرے تمام ممالک پر برتری اور فوقیت حاصل ہونی چاہیے۔اس لیے، مشرقی ایشیا میں ان کی حکمت عملی یہ ہے کہ کسی بھی دوسری بڑی طاقت کو برتری حاصل کرنے سے روکا جائے اوریہی چیزچین سے اس کی مخاصمت کی وجہ ہے۔
کارٹی نے 1960 کی دہائی میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ریکارڈ کا حوالہ بھی دیا، جس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو کسی بھی صورت میں بحیرہ جنوبی چین کے جزائر (نانہائی ژوداؤ) کو دوبارہ چینیوں کے ہاتھ نہیں لگنے دینا چاہیے کیونکہ یہ امریکہ کے اسٹریٹجک مفاد میں نہیں ہوگا۔