نیو یارک (شِنہوا) واشنگٹن پوسٹ نے رواں ماہ کے اوائل میں اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ترقی پذیر دنیا کے متعدد بڑے اور طاقتور ممالک میں مغرب مخالف اور امریکہ مخالف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور اس رویے کی جڑیں'دیگر کے عروج 'کے رجحان سے جڑی ہوئی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی نظام میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ ممالک جو ایک وقت میں آبادی کے حامل لیکن غریب تھے وہ اب کنارے سے مرکز کی طرف آ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابھرتی ہوئی مارکیٹس جو ایک وقت میں عالمی معیشت کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھیں ،اب اس کا مکمل طور پر آدھا حصہ ہیں جس کے لئے یہ کہنا مناسب ہوگا کہ یہ ابھری ہیں۔
جس طرح یہ ممالک معاشی طور پر مضبوط، سیاسی طور پر مستحکم اور ثقافتی طور پر قابل فخر ہوئے ہیں یہ زیادہ قوم پرست بھی بن گئے ہیں اور ان کی قوم پرستی کی اکثر ان ممالک کے خلاف وضاحت کی جاتی ہے جو بین الاقوامی نظام پر غلبہ رکھتے ہیں، اس میں مغرب شا مل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'نئی دنیا' کی خصوصیت امریکہ کے زوال سے نہیں بلکہ 'ہر ایک کے عروج' سے ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ دنیا کے بڑے حصے جو کبھی شطرنج کے پیادے ہوا کرتے تھے اب کھلاڑی ہیں اور اپنےمفادات کے تحت آ گے بڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کو آسانی سے نہ ڈرایا جا سکے گا نہ خوشامد سے راضی کیا جا سکے گا۔ انہیں ان پالیسیوں کے ذریعے قائل کرنا ہوگا جو اندرون ملک رائج ہیں نہ کہ جن کا صرف بیرون ملک پرچار کیا جاتا ہے ۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس بین الاقوامی میدان کو پار کرنا امریکی سفارتکاری کا سب سے بڑا چیلنج ہے۔