جنیوا (شِنہوا) اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی (یو این سی ٹی اے ڈی) نے کہا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک کی مالیاتی پالیسی دنیا کو عالمی کساد بازاری اور طویل جمود کی طرف لے جاسکتی ہے۔ یہ 2008 کے مالی بحران اور نوول کرونا وائرس کے جھٹکے سے زیادہ بدتر نقصان ہوگا۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کی تجارت و ترقی رپورٹ 2022 میں بتایا گیا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں شرح سود میں تیزرفتار اضافہ اور مالیاتی سختی ، نوول کرونا وائرس وبا اور یوکرین تنازع سے پیدا بحرانوں نے پہلے ہی عالمی سست روی کو مندی میں بدل دیا ہے اور اس میں بہتری کا امکان نظر نہیں آتا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انتہائی کم شرح سود کے ایک عشرے میں مرکزی بینک مہنگائی کا ہدف حاصل کرنے سے کافی دور رہے، اور اس عرصے میں صحت مند معاشی شرح نمو پیدا نہیں کرسکے۔
بلند شرح سود پر انحصار اور کساد بازاری پیدا کئے بغیر قیمتیں کم کرنے پر یقین کرنا غیردانشمندانہ جوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق حقیقی اجرت میں کمی، مالی عدم استحکام اور ناکافی کثیر الجہتی معاونت و ہم آہنگی کے موقع پر، ضرورت سے زیادہ مالیاتی سختی ، جمود و معاشی عدم استحکام کو شروع کرسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تجارت و ترقی کو توقع ہے کہ 2022 میں عالمی معیشت کی شرح نمو 2.5 فیصد رہے گی اور 2023 میں یہ مزید کم ہوکر 2.2 فیصد رہ جائے گی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مر بوط سست روی سے تمام خطے متاثر ہورہے ہیں تاہم یہ ان ترقی پذیر ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے جہاں اوسط شرح نمو 3 فیصد سے کم ہونے کا امکان موجود ہے۔
اس سے سرکاری اور نجی پیسہ مزید سکڑجائے گا اور روزگار کے مواقع کو نقصان ہوگا۔