بیجنگ (شِنہوا) چین میں نوول کرونا وائرس کی روک تھام اور تدارک ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے۔ زندگی معمول پر لوٹ رہی ہے اور نقل وحمل بحال ہورہی ہے جو عالمی معیشت کے لئے ایک نعمت ہے۔
تاہم بعض مغربی ذرائع ابلاغ نے حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے دوہرا معیار اپنا یا اور یہاں تک کہ غلط معلومات پھیلائیں۔ چین کی وبائی جنگ کے خلاف بلاجواز الزامات عائد کئے، عوام کو الجھایا اور دنیا کو گمراہ کیا۔ اس کے بر عکس حقائق اور اعداد و شمار کی روشنی میں یہ جھوٹ واضح اور ناقابل یقین ہے۔
غلط فہمی نمبر 1 : نئی نوول کرونا وائرس پالیسی افراتفری کا باعث بنی
اصل صورتحال یہ ہے کہ صوبہ شانشی کے شہر شی آن میں تجارتی چہل پہل کے لئے معروف گلی گرینڈ تانگ ڈائناسٹی ایور برائٹ سٹی لوگوں سے بھری ہوئی تھی۔
صوبہ ہیبے کے شی جیان ژوانگ اور صوبہ ہوبے کے ووہان کے رہائشیوں نے فضا میں غبارے چھوڑے۔ صوبہ ہونان کے شہر شیانگ تان میں مقامی افراد نے نئے سال کی تقریبات کے دوران آتش بازی کا مظاہرہ کیا۔ ایک انٹرنیٹ صارف نے لکھا کہ بہت سے لوگوں کو ایک ساتھ نئے سال کا جشن مناتے ہوئے دیکھ کر میرے آنسو چھلک پڑے۔
نئے سال کی تعطیلات کے دوران چین میں 5 کروڑ سے زائد افراد نے سفر کیا۔ یکم جنوری کو ملک بھر میں 10 ہزار 640 سینما گھر کھول دیئے گئے۔ یہ تقریباً 10 ماہ کی ایک نئی بلند ترین سطح ہے۔
بہت سے لوگ آمدہ موسم بہار تہوار میں خاندان سے ملنے یا سفر کے لئے اپنے آبائی شہروں میں واپسی کا منصوبہ بنارہے ہیں۔
مقامی ہوائی ٹکٹوں اور ہوٹلوں کی بکنگ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
غلط فہمی نمبر 2: چین کا نوول کرونا وائرس کے خلاف ردعمل ناکام رہا
گزشتہ 3 برس کے دوران چین نے نوول کرونا وائرس کے خلاف جنگ کی اور 100 سے زائد وبائی حملے مئوثر طریقے سے ناکام بنائے۔ اس دوران 1.4 ارب سے زائد افراد کی زندگیوں اور صحت کو سب سے زیادہ حد تک محفوظ رکھا گیا۔
ہر ملک وبا کی بدلتی ہوئی صورتحال کے مطابق اپنی انسداد نوول کرونا وائرس پالیسی میں ردوبدل کرتا ہے اور اس طرح کے ردوبدل کے بعد موافقت کے ادوار سے گزر تا ہے۔
غلط فہمی نمبر 3 : چین کا اقتصادی خاکہ مدھم ہے
چین کے نوول کرونا وائرس کے بہتر ردعمل نے چینی معیشت پر پڑنے والے اثرات کی پیش گوئی پر بہت سے نشیب و فراز کو جنم دیا۔ چینی معیشت کے مستقبل پر غیر ملکی مایوسی پسندوں کے عائد کردہ مخصوص الزامات میں سے ایک ٹاپسی ٹروی ٹائم تھا۔
چین کی بحالی کے "بدقسمت ضمنی اثرات" سے پریشان کچھ غیرملکی ناقدین نے یہاں تک کہا کہ چین کا دوبارہ کھلنا باقی دنیا پر بوجھ بن سکتا ہے جس کی وجہ زیادہ شرح نمو نہیں بلکہ افراط زر یا شرح سود کی بلند سطح ہوگی۔
کیا چین کی اقتصادی بحالی کے امکانات روشن ہیں یا مدھم؟
گزشتہ 3 برس میں چین نے عالمی وبائی امراض کے پھیلنے کی 5 لہروں کے اثرات سے مئو ثر طریقے سے نمٹا ہے۔
چین اپنے وبائی ردعمل ، معاشی اور سماجی ترقی میں توازن رکھتے ہوئے نہ صرف ترقی کی طرف واپس آنے والی پہلی بڑی معیشت کے طور پر ابھرا ہے ، بلکہ تقریباً 4.5 فیصد کی اوسط سالانہ شرح نمو کو بھی برقرار رکھا ، جو عالمی اوسط سے نمایاں طور پر زائد ہے۔
توقع ہے کہ چین اپنی جی ڈی پی کو 1200 کھرب یوآن (174.1 کھرب امریکی ڈالرز) تک بڑھا دے گا۔ اس کی اناج کی پیداوار مسلسل 8 ویں برس 65 کروڑ ٹن سے زائد رہی۔ گزشتہ برس کے ابتدائی 11 ماہ میں 11.6 کھرب یوآن کی غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی جو 2021 کی سطح سے زیادہ ہے۔
غلط فہمی نمبر 4 : مریضوں کو دوا اور علاج میں کمی کا سامنا ہے
سچ تو یہ ہے کہ ہر سطح پر چینی طبی ادارے وسائل اور افرادی قوت میں اضافے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں۔ حقیقتاً وہ مصروف ہیں لیکن آسانی سے کام کر رہے ہیں۔
صوبہ حئی لونگ جیانگ کے شہر ہاربن میں واقع ہاربن میڈیکل یونیورسٹی کے پہلے الحاق شدہ اسپتال میں حالیہ دنوں میں نوول کرونا وائرس کے 140 سے زائد شدید بیمار مریضوں کو لایا گیا ہے۔
اسپتال کے صدر یو کائی جیانگ نے کہا کہ بہت سے ڈاکٹروں نے مریضوں کی نگہداشت جاری رکھی حالانکہ وہ خود بیمار تھے اور ہم ہر شدید حالت کا شکار مریض کو بچانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔
اسپتال نے انتہائی نگہداشت کے بستروں کی تعداد 132 سے بڑھا کر 143 کردی ہے اور نوول کرونا وائرس کے مریضوں میں اضافے سے نمٹنے کے لئے شفٹس میں کام کرنے والی 60 نرسوں کے ایک گروپ کے ساتھ مختلف چینلز سے فعال طور پر وینٹی لیٹرز تلاش کئے ہیں۔
غلط فہمی نمبر 5 : دیہاتیوں کے لئے تاریک نوول کرونا وائرس موسم سرما
حقیقت یہ ہے کہ چین نے دیہی علاقوں کو ملک کے موجودہ نوول کرونا وائرس کے ردعمل میں مرکز نگاہ بنایا، طبی صلاحیتوں کو بڑھایا ہے اور بروقت مدد فراہم کی ہے۔
ملک کے 23 ہزار کاؤنٹی سطح کے طبی اداروں ، 35 ہزار ٹاؤن شپس اسپتالوں اور 5 لاکھ 99 ہزار گاؤں کے کلینکس کے درمیان ایک قریبی باہمی تعاون اور مئوثر صحت کے تحفظ کا نظام تشکیل دیا گیا ہے تاکہ دیہی مریضوں کو فوری ، بروقت اور آسان طبی خدمات دستیاب ہوسکیں۔
غلط فہمی نمبر 6 : سرکاری طور پر نوول کرونا وائرس اموات کی تعداد ناقابل بھروسہ ہے
حقیقت یہ ہے کہ چین نے ہمیشہ کھلے پن اور شفافیت کے جذبے کے تحت نوول کرونا وائرس سے ہونے والی اموات اور سنگین کیسز بارے معلومات شائع کی ہیں۔
نوول کرونا وائرس سے اموات کا اندازہ لگانے کے عالمی معیار کو 2 کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے۔
کچھ ممالک صرف ان افراد کا شمار کرتے ہیں جو نوول کرونا وائرس مثبت تھے اور اس کے سبب سانس لینے میں دشواری سے لقمہ اجل بن گئے۔ دیگر ممالک ان تمام افراد کے مرنے کو نوول کرونا وائرس اموات کے طور پر شمار کرتے ہیں جو گزشتہ 28 روز میں مثبت پائے گئے۔
چین نے 2020 کے بعد سے پہلا معیار اپنایا ہے جس میں نوول کرونا وائرس کے مثبت ٹیسٹ کے باعث سانس لینے میں دشواری کے سبب موت کو نوول کرونا وائرس اموات میں شمار کیا جاتا ہے۔
چین نے ایسے کیسز بھی شائع کئے جن میں مریض نوول کرونا وائرس سے متاثر ہوئے لیکن موت کی براہ راست وجوہات بنیادی بیماریاں تھیں۔ ایسے کیسز میں موت کی وجوہات کو بنیادی بیماریوں سے منسوب کیا گیا تھا۔