امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے خلا میں ایک تجربے کے دوران انتہائی مہارت اور کامیابی کے ساتھ اپنا ایک خلائی جہاز ایک سیارچے سے ٹکرا کر تباہ کر دیا ۔ ناسا اس مشن کے ذریعے یہ جاننا چاہتا ہے کہ ایک بڑے حجم کے خلائی پتھر کو زمین سے ٹکرانے سے روکنا کتنا مشکل ہو سکتا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق خلا میں موجود ایک بڑے پتھر سے خلائی جہاز ٹکرانے کا یہ تجربہ زمین سے تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ کلومیٹر دور کیا گیا ہے۔ اور جس سیارچے کو خلائی جہاز نے ہدف بنایا اس کو ڈیمورفوس کا نام دیا گیا ہے جبکہ اس مشن کو ڈارٹ مشن کہا جاتا ہے۔امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا کہنا ہے کہ اس وقت یہ خلائی پتھر زمین سے ٹکرانے کے راستے یا مدار پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ تجربہ اس پتھر کو حادثاتی طور پر یا غلطی سے زمین کی طرف بھیجے گا۔یہ تجربہ برطانوی وقت کے مطابق رات 12 بجے کر 14 منٹ پر کیا گیا جب ناسا کا خلائی جہاز اس سیارچے سے جا ٹکرایا اور اس سارہ عمل کی اس خلائی جہاز پر موجود کیمرے سے عکس بندی بھی کی گئی تاوقت کہ وہ تباہ نہیں ہو گیا۔اس خلائی جہاز نے اس تمام تجربے اور سیارچے سے ٹکرانے کے سفر کی ہر سکینڈ تصاویر زمین پر بھیجی ہیں۔خلا میں موجود سب سے بڑی ٹیلی سکوپ جیمز ویب سمیت دیگر خلائی دور بینوں کے ذریعے اس تجربے کو دیکھا گیا ہے۔ناسا اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے خیال میں اس کا ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ خلائی جہاز کو ہی اس سیارچے کے ساتھ ٹکرا دیا جائے۔اس عمل کے پیچھے یہ سوچ یا خیال ہے کہ آپ کو اس سیارچے کی زمین کی جانب بڑھنے کے رخ کو معمولی سا تبدیل کرنے کے لیے اس کی رفتار کو کم کرنا ہو گا تاکہ زمین ان کا ہدف نہ بن سکے۔
بشرطیکہ آپ یہ کارروائی زمین سے کافی فاصلے سے کر لیں۔جانز ہاپکنز یونیورسٹی کی اپلائیڈ فزکس لیبارٹری میں موجود کنٹرولرز اس تجربے کے مکمل ہوتے ہی خوشی سے اچھل پڑے کیونکہ اس خلائی جہاز کے ٹکرا سے چند لمحے قبل اس کے کیمرے میں ڈیمورفوس سیارچے کے منطر سے بھر دیا تھا۔سائنسدانوں کے ابتدائی حساب کتاب کے مطابق اس تجربے میں خلائی جہاز، سیارچے کے مرکز سے صرف 17 میٹر ہٹ کے ٹکرایا ہے۔البتہ ناسا کے سائنسدانوں کو یہ جاننے میں کچھ وقت لگے گا کہ کیا ان کا تجربہ کامیاب رہا مگر ناسا میں خلائی سائنس کی ڈائریکٹر لوری گلیز کو یقین ہے کہ کچھ اہم نتائج حاصل ہو گئے ہیں۔انھوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ 'ہم بنی نوع انسان کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہے ہیں، ایک ایسا دور جس میں ہم ممکنہ طور پر اپنے آپ کو کسی خطرناک سیارچے کے اثرات سے بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کتنی حیرت انگیز بات ہے۔ ہمارے پاس اس سے پہلے کبھی یہ صلاحیت نہیں تھی۔جان ہاپکنز یونیورسٹی کے اپلائیڈ فزکس لیبارٹری میں ہی مشن سسٹم انجینئر ڈاکٹر ایلینا ایڈمز کا کہنا تھا کہ 'ہم زمین باسیوں کو سکون کی نیند سونا چاہیے کیونکہ انھیں علم ہونا چاہیے کہ اب ان کے پاس خلائی حملے سے دفاعی نظام موجود ہے۔یہ مشن اس نظریہ کا تجربہ کرنا تھا کہ 160 میٹر چوڑے ڈیمورفوس نامی سیارچے سے ایک خلائی جہاز تقریبا 20 ہزار سے 22 ہزار کلومیٹر کی رفتار سے جا ٹکرائے۔یہ توقع ہے کہ اس تجربے کے بعد یہ سیارچہ اپنے قریبی موجود اپنے سے کافی بڑے ڈیڈیموس نامی سیارچے کے مدار کی جانب روزانہ چند منٹ بڑھنا شروع ہو جانا چاہیے۔ناسا نے وعدہ کیا تھا کہ جیسے ہی خلائی جہاز 570 کلوگرام وزنی سیارچے سے ٹکرائے گا اس تمام تجربے کی شاندار تصاویر حاصل کی جائیں گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی