سری لنکا میں بھوک کے باعث بے ہوش ہونے والے سکول کے بچوں کی خبریں منظرعام پر آنے کے بعد حکومت نے سرکاری عہدیداروں کو سوشل میڈیا پر اظہار رائے سے منع کر دیا ہے۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سری لنکا کی وزارت برائے پبلک ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ نے ملک کے 15 لاکھ اہلکاروں کو ہدایت کی ہے کہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار نہ کیا جائے۔خیال رہے کہ سری لنکا کی حکومت نے سرکاری عہدیداروں کے صحافیوں سے بات کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔وزارت کی جانب سے جاری حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ سرکاری افسر کا سوشل میڈیا پر خیالات کا اظہار جرم کے مترادف ہوگا جس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔وزارت نے یہ حکم محکمہ صحت کے صوبائی عہدیداروں اور اساتذہ کے بیان کے بعد جاری کیا ہے جس میں انہوں نے دعوی کیا تھا کہ خوراک میں کمی کے باعث درجنوں کی تعداد میں طلبا سکولوں میں بے ہوش ہو رہے ہیں۔وزیر صحت کاہیلیا رامبوک ویلا نے ان دعووں کی تردید کرتے ہوئے صحت کے شعبے سے متعلقہ افراد پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جان بوجھ کر صورتحال کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں۔جبکہ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 60 لاکھ سری لنکن شہری یعنی ایک تہائی آبادی کو خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور انسانی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہے۔سال 2021 کے آخر سے سری لنکا کی دو کروڑ بیس لاکھ کی آبادی کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔صدر رانیل وکرما سنگھے نے حکومت مخالف مظاہرین پر کریک ڈائون کرتے ہوئے دارالحکومت کولمبو میں احتجاج پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔رواں ماہ سری لنکا کی حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان 2.9 ارب ڈالر کے مشروط مالیاتی پیکچ کی ڈیل ہوئی ہے۔سری لنکا کی معاشی بحالی کا دارومدار قرض دہندگان کے ساتھ معاہدے پر ہے اگر وہ 51 ارب ڈالر کے قرض کی تشکیل نو پر مان جائیں۔سری لنکا کو سب سے زیادہ قرض دینے والے ملک چین نے مزید قرضہ دینے کی تو پیشکش کی ہے لیکن پچھلے قرضوں کی تشکیل نو کا نہیں کہا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی