چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا 2013 میں آغاز ہوا تو اس وقت ایک طالب علم معاذ اعوان کو شاید ہی اس بات کا علم ہوکہ کوئی زبردست تبدیلی آسکتی ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت نقشے پر سال 2013 میں سی پیک چین کے شمال میں واقع کاشغر کو جنوب میں پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے ساتھ ملانے کے حوالے سے ایک راستے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ چین کے صدر شی جن پھنگ نے 2015 میں اپنے "آہنی دوست " ہمسایہ ملک کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ فریقین نے تعاون کے 50 سے زائد معاہدوں پر دستخط کئے جن میں سی پیک کی ترقی کو چار اہم شعبوں گوادر بندرگاہ ، نقل وحمل کے بنیادی ڈھانچے ، توانائی اور صنعتی تعاون پر توجہ مرکوز کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اس کے بعد سے کاغذ پر ڈیزائن تیزی سے ایک حقیقت بدلنے لگا اور معاذ جیسے عام پاکستانی شہریوں کو زبردست ترقیاتی فوائد حاصل ہوئے۔ معاذ نے بتایا کہ سی پیک بلاشبہ ان کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں لایا ہے ۔ یہ 30 سالہ معاذ اعوان چین کے لیے قطعی اجنبی نہیں ہیں ۔ انہوں نے کئی برس تک چین میں تعلیم حاصل کی اور روانی سے چینی زبان بولتے ہیں۔ ان کے والد ضمیر احمد اعوان ایک ماہر امور چین ہیں۔
انہوں نے چین میں اصلاحات اور کھلے پن کے آغاز کے بعد چین میں تعلیم حاصل کی اور بیجنگ میں سفارتکار کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ معاذ اب چائنہ تھری گورجز ساتھ ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ میں سینئر منیجرکے عہدے پر فائز ہیں، جو پاکستان کے شمال میں واقع کیروٹ پن بجلی گھر کا آپریٹر ہے۔ اس نے جون 2023 کے اختتام پر محفوظ آپریشن کی پہلی سالگرہ منائی تھی۔ کیروٹ پن بجلی گھر نے مکمل طور پر فعال ہونے بعد سے اب 3.64 ارب کلوواٹ آورز بجلی پیدا کی ہے جس سے تقریبا 15 لاکھ 90 ہزار ٹن معیاری کوئلے کی بچت ہوئی اور تقریبا 39 لاکھ 80 ہزار ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کم ہوا۔ اس نے 50 لاکھ سے زائد افراد کی بجلی کی طلب پوری کی۔ ایک دہائی قبل سی پیک کے آغاز کے وقت پا کستا ن میں بجلی کی شدید قلت تھی،لوگوں کو یومیہ 12 گھنٹے سے زیادہ کی لوڈشیڈنگ کا سامنا تھا۔ معاذ نے بتایا کہ سی پیک کے تحت کیروٹ جیسے توانائی کے منصوبوں سے پاکستان اپنے توانائی کے بحران پر قابو پا تے ہوئے زیادہ سے زیادہ توانائی کا تحفظ حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بجلی کی درآمدات پر انحصار کم کرکے صنعتوں اور گھروں کو بجلی کی مستحکم فراہمی یقینی بناسکتا ہے۔ معاذ نے کہا کہ کیروٹ منصوبے کی تعمیر میں ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دی گئی تھی۔ مچھلیوں کی رہائش گاہوں کا تحفظ، آگاہی اور شجرکاری مہم چلانے کے علاوہ اطراف کی بستیوں کو مواقع فراہم کرنے بارے ایک جامع انتظامی منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی