i بین اقوامی

سعودی عرب نے غیر ملکی ملازمین کی تنخواہیں کم کر دیںتازترین

November 17, 2025

سعودی عرب نے اقتصادی ترجیحات میں تبدیلی اور اخراجات میں احتیاطی رویے کے باعث غیر ملکی پیشہ ور افراد کو دی جانے والی بلند تنخواہی مراعات میں واضح کمی کر دی ہے، جس کی تصدیق خلیج میں سرگرم متعدد بین الاقوامی ریکروٹرز نے کی ہے۔برطانوی خبررساںادارے کے مطابق ملک اپنے بڑے ترقیاتی منصوبے ویژن 2030 کے نصف سے زیادہ سفر طے کر چکا ہے، جس کا مقصد تیل پر انحصار گھٹانا، روزگار کے وسیع مواقع پیدا کرنا اور سیاحت، کان کنی، مالیاتی خدمات، لاجسٹکس اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کو مضبوط بنانا ہے۔گزشتہ برسوں میں غیر ملکی ماہرین کو تعمیرات، مینو فیکچرنگ اور میگا پروجیکٹس کے لیے 40 فیصد تک یا اس سے بھی زیادہ تنخواہی اضافہ پیش کیا جاتا تھا، مگر اب بھرتی کرنے والے اداروں کے مطابق ایسی دل کھول کر دی جانے والی پیشکشیں ختم ہو چکی ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق سعودی کمپنیاں اب حقیقی مارکیٹ شرحوں، کارکردگی اور بجٹ کو دیکھتے ہوئے پیشکش کر رہی ہیں۔بوئی ڈن کے منیجنگ ڈائریکٹر مگڈی الزین کا کہنا ہے، ایک طرف ریاستی سطح پر اخراجات میں نظم و ضبط ہے، اور دوسری طرف خطے میں آنے کی غیر ملکی ماہرین کی بڑی تعداد۔ اس صورتحال نے آجرین کو پیکجز پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔کثیر سرمایہ کاری کرنے والے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے انفراسٹرکچر اور تعمیراتی منصوبوں میں پیش آنے والی چیلنجز کے بعد اب سرمایہ کاری کا رجحان مصنوعی ذہانت یا اے آئی، لاجسٹکس اور کان کنی جیسے زیادہ منافع بخش شعبوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔خطے کے سب سے بڑے منصوبوں میں نیوم جس پر تقریبا 500 ارب ڈالر لاگت آئے گی اور ٹروجینا جیسے مستقبل کے سیاحتی و تکنیکی شہر شامل ہیں، جو تاخیر کا شکار ہیں۔اسی دوران 2025 میں سعودی عرب میں پروجیکٹ ایوارڈز کی شرح تقریبا نصف رہی ہے، جو سرگرمی میں سست روی کی نشاندہی کرتی ہے۔

دبئی کے ریکروٹمنٹ کنسلٹنٹ تسکن مڈل ایسٹ کے سربراہ حسن بابت کے مطابق، ترقی کی رفتار کم ہونے سے بھرتی میں بھی کمی آئی ہے۔ اب آجرین تنخواہوں پر پہلے سے زیادہ سختی سے بات چیت کرتے ہیں اور لاگت کنٹرول کرنے کے اقدامات اپنا رہے ہیں۔ان کے بقول ماضی میں یو اے ای میں 60 ہزار ڈالر سالانہ کمانے والا پروجیکٹ مینیجر سعودی عرب میں لگ بھگ 100 ہزار ڈالر تک کی پیشکش حاصل کر لیتا تھا، جو اب عام نہیں رہی۔ریکروٹرز کے مطابق اب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی نجی شعبے کی تنخواہوں میں صرف 5 تا 8 فیصد کا معمولی فرق رہ گیا ہے۔ کوپر فِچ کے سی ای او ٹریفر مرفی کے مطابق، یو اے ای میں رہنے والے اعلی مہارت یافتہ ملازمین کو سعودی عرب منتقل کرنا اب مشکل ہوتا جا رہا ہے، کیونکہ وہ پہلے والی پریمیم امید رکھتے ہیں۔سعودی حکومت کی اصلاحات اور نجی شعبے میں مقامی شہریوں کی شمولیت بڑھانے کی پالیسیوں کے نتیجے میں سعودی شہریوں کی بے روزگاری تاریخی حد تک کم ہو چکی ہے، جبکہ 2016 سے 2024 تک نجی شعبے میں سعودیوں کی تعداد میں 31 فیصد اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا ہے۔دبئی کی کمپنی میچز ٹیلنٹ کی سی ای او لوئس کنٹسن کا کہنا ہے، پیکیجز اب ڈیٹا اور حقیقی مارکیٹ بینچ مارکس پر مبنی ہیں۔ کچھ لوگوں کو یہ کمی محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ دراصل بازار کی پختگی کی علامت ہے۔ان کا کہنا ہے کہ بہترین عالمی ٹیلنٹ کو راغب کرنے کے لیے سعودی کمپنیوں کو تمام رہائشی اخراجات کا مکمل احاطہ کرنے والے پیکیجز، خاندانوں کے لیے متوازن طرزِ زندگی اور منصوبوں کے واضح وژن کی پیشکش کرنا ہو گی۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی