غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی حملے جاری، خان یونس میں میزائل حملے نے خیمہ بستی میں آگ لگا دی جس کے نتیجے میں دو بچوں سمیت پانچ فلسطینی شہید ہوگئے، جبکہ فریقین نے ایک دوسرے پر معاہدہ توڑنے کا الزام عائد کر دیا۔عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں جمعرات کی صبح اسرائیلی میزائل حملے کے باعث خیمہ بستی میں آگ بھڑک اٹھی۔ حملے میں دو بچوں سمیت پانچ فلسطینی شہید ہوگئے۔ مقامی افراد نے موقع پر پہنچ کر آگ پر قابو پایا اور مزید خیموں کو جلنے سے بچا لیا۔الکویتی اسپتال کے طبی حکام کے مطابق اسپتال میں لائی گئی 5 لاشوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے جبکہ کچھ افراد کی حالت تشویشناک ہے۔اسرائیلی فوج نے دعوی کیا کہ خان یونس میں کیا گیا حملہ حماس کے ایک جنگجو کو نشانہ بنانے کیلئے تھا۔دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے، اور اس کے نتائج کی تمام تر ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوگی۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان 10 اکتوبر سے نافذ جنگ بندی کے بعد سے غزہ میں 350 سے زائد فلسطینی مختلف حملوں میں شہید ہو چکے ہیں۔
اگرچہ جنگ بندی کے بعد تشدد میں کچھ کمی آئی، تاہم اسرائیلی فضائی اور زمینی حملے وقفے وقفے سے جاری ہیں، جس سے علاقے میں کشیدگی اور بے چینی برقرار ہے۔دوسری جانب اسرائیل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں رفح بارڈر کو کھول دیا جائے گا، جس سے غزہ کے رہائشیوں کو شہر سے باہر نکلنے کی اجازت مل جائے گی۔ طویل جنگ سے تباہ ہونے والے پٹی کے رہائشیوں کے لئے یہ ایک بڑی پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ ان کیلئے جنگ کے دوران وہاں سے نکلنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا۔امریکی خبر رساں ادارے کے مطابق اس اعلان سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں بیمار اور زخمی لوگ علاج معالجے کی سہولتوں تک رسائی حاصل کر سکیں گے۔دو سال کی جنگ کے دوران غزہ کا شعبہ صحت بری طرح متاثر ہوا اور اس کے پاس جراحی میں استعمال ہونے والے جدید آلات موجود نہیں ہیں۔ تاہم اسرائیل کے اس اعلان کے باوجود بھی پیچیدگی موجود ہے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ فلسطینی غزہ سے جانے والوں کے لیے اسرائیل اور مصر سے منظوری لینا ضروری ہو گا اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ منظوری کے لیے کیا معیار رکھا گیا ہے۔
اسی طرح ایک اور اہم متنازع نکتہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا کہنا ہے جب تک سات اکتوبر 2023 کو حملے کے موقع پر تمام یرغمالیوں کو چھوڑ نہیں دیا جاتا تب تک فلسطینی غزہ سے صرف نکل سکیں گے، واپس نہیں جا سکیں گے۔دوسری جانب مصر کا کہنا ہے کہ وہ چاہتا ہے دونوں طرف سے بارڈر کو کھولا جائے تاکہ مصر میں موجود فلسطینی بھی غزہ جا سکیں۔ مصر کی اس پوزیشن کی بنیادی وجہ وہی ہے جس کے تحت وہ نہیں چاہتا کہ فلسطینی پناہ گزین مسقتل طور پر وہاں رہیں۔جنگ سے قبل رفح بارڈر لوگوں کی آمد و رفت کے علاوہ سامان کی بھی بڑے پیمانے پر نقل و ہوتی رہتی تھی۔اگرچہ غزہ میں چار اور سرحدی گزر گاہیں بھی ہیں تاہم اسرائیل کے ساتھ مشترکہ ہیں اور صرف رفح ہی وہ گزرگاہ ہے جو علاقے کو کسی دوسرے ملک کے ساتھ جوڑتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ غزہ میں ساڑھے 16 ہزار سے زائد بیمار اور زخمی افراد موجود ہیں اور علاج کے لیے ان کا وہاں سے نکلنا ضروری ہے۔د ریں اثنا فلسطینی کے شعبہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل حملوں سے مجموعی طور پر 70 ہزار ایک سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہوئے۔مئی 2024 میں اسرائیل کے غزہ کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد مصر نے گزر گاہ سوائے کو بند کر دیا تاہم کبھی کھبار اسے طبی معاملات کے لیے کھولا بھی جاتا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی