i بین اقوامی

دنیا بھر میں جنگلی حیات میں گزشتہ 50 برسوںکے دوران تقریبا 70 فیصد کمی کا انکشافتازترین

October 14, 2022

دنیا بھر میں جنگلی حیات کی زیرنگرانی رہنے والی آبادی میں گزشتہ 50 برسوں میں تقریبا 70 فیصد کمی کا انکشاف ہوا ہے، جس کو انسانی نقل و حرکت سے جوڑا گیا ہے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق جاری ہونے والی ایک نئی رپورٹ میں انسانی سرگرمیوں کے باعث فطرت کے تباہ کن نقصانات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف لوِنگ پلانیٹ انڈیکس نے رپورٹ میں ممالیہ جانوروں، پرندوں، امبیبیئنز، رینگنے والے جانوروں اور مچھلیوں سمیت 5 ہزار اقسام کی 32 ہزار آبادی کے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے دنیا بھر میں ان کی تیزی سے کمی کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔لاطینی امریکا اور کیریبین جیسے حیاتیاتی تنوع سے مالا مال علاقوں میں جانوروں کی آبادی میں کمی کے اعداد و شمار 94 فیصد تک ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی سطح پر 1970 کے بعد سے نگرانی کیے جانے والے جانوروں کی آبادی میں 69 فیصد کمی آئی ہے۔ڈبلیو ڈبلیو ایف انٹرنیشنل کے ڈائریکٹر جنرل مارکو لیمبرٹینی نے کہا کہ ان کی تنظیم نئے اعداد و شمار پر انتہائی فکرمند ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنگلی حیات کی آبادی میں خاص طور پر گرم علاقوں میں تباہ کن کمی آئی ہے جو دنیا کے سب سے زیادہ حیاتیاتی متنوع نظاروں کا مرکز ہیں۔ڈبلیو ڈبلیو ایف میں سائنس کے ڈائریکٹر مارک رائٹ نے کہا کہ نئے اعداد و شمار خاص طور پر لاطینی امریکا کے لیے واقعی خطرناک ہیں۔ڈائریکٹر مارک رائٹ نے کہا کہ لاطینی امریکا حیاتیاتی تنوع اور بہت سی دوسری چیزوں کے لیے بھی بہت اہم ہے۔انہوں نے کہا کہ لاطینی امریکا آب و ہوا تبدیل کرنے کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے، ہمارا اندازہ ہے کہ فی الحال ایمیزون کے جنگلات میں 150 سے 200 ارب ٹن کاربن کا خزانہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ 550 ارب ٹن سے 740 ارب ٹن سی او ٹو کے برابریا موجودہ شرح پر سالانہ گرین ہاس گیسوں کے اخراج سے 10 سے 15 گنا زیادہ ہے۔انڈیکس میں بتایا گیا ہے کہ میٹھے پانی کی پرجاتیاں کسی دوسرے رہائش گاہوں میں پائی جانے والی جانداروں کی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ کم ہوئی ہیں، جس میں 1970 سے اب تک 83 فیصد آبادی میں کمی آئی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کہ جنگلی حیات کے نقصان کے اصل اسباب میں ترقی اور کاشت کاری، استحصال، حملہ آور جانداروں کو لانا، آلودگی، موسمیاتی تبدیلی اور بیماریاں شامل ہیں۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی