اسرائیل فوج نے غزہ کے النصر اسپتال کے ساتھ صحافیوں کے خیموں پر حملہ کیا جس میں ایک صحافی زندہ جل گیا جبکہ 7 جھلس کر زخمی ہو گئے جبکہ اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 14 سالہ فلسطینی نژاد امریکی لڑکا بھی شہید ہوگیا۔ ۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی بمباری سے الاقصی اسپتال کے قریب بے گھر افراد کے خیموں پر بمباری سے متعدد فلسطینی شہید اور زخمی ہو گئے۔غزہ میں 18 مارچ کو جنگ بندی معاہدہ توڑنے کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں اب تک 500 بچے شہید ہو چکے۔غزہ کی وزارت صحت کے حکام کے مطابق اسرائیلی فوج 20 روز سے نسل کشی مہم میں مسلسل بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے، غزہ کا بچپن بمباری سے تباہ عمارتوں کے ملبے تلے دفن ہو رہا ہے۔ ادھر فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مغربی کنارے کے علاقے ترمسعیا میں ایک 14 سالہ فلسطینی نژاد امریکی شہری عمر محمد ربیع کو فائرنگ کر کے شہید کر دیا۔ترمسعیا کے میئر عدیب لافی نے غیرملکی خبررساںادارے کو بتایا کہ عمر ربیع اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ قصبے کے داخلی راستے پر موجود تھا جب ایک اسرائیلی آبادکار نے ان پر گولیاں چلائیں۔ بعد ازاں اسرائیلی فوج نے عمر کو حراست میں لیا اور پھر اسے مردہ قرار دے دیا۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ماورائے عدالت قتل قرار دیا اور کہا کہ یہ اسرائیل کی مسلسل استثنی کی پالیسی کا نتیجہ ہے۔ دریں اثنا اسرائیلی فوج نے دعوی کیا ہے کہ ترمسعیا میں ایک انسداد دہشتگردی کارروائی کے دوران ان کے فوجیوں نے "تین دہشتگردوں" کو پہچانا جو سڑک پر پتھرا ئوکر کے شہریوں کو خطرے میں ڈال رہے تھے۔ فوج کے مطابق، "فوجیوں نے دہشتگردوں پر فائرنگ کی، ایک کو ہلاک اور دو کو زخمی کر دیا۔"واقعے نے عالمی سطح پر تشویش کو جنم دیا ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ عمر ربیع امریکی شہریت رکھتا تھا اور کم عمر تھا۔ دوسری جانب حماس نے اسرائیلی حملوں میں بچوں کے قتل عام کی شدید مذمت کی۔حماس کے مطابق غزہ میں بچوں کی اموات اسرائیلی جنگی جرائم کا واضح ثبوت ہے، امریکا اور اسرائیل غزہ میں نسل کشی کے برابر ذمہ دار ہیں، ٹرمپ انتظامیہ نے نیتن یاہو کو جنگی جرائم کی اجازت دے رکھی ہے۔حماس نے مزید کہا کہ یونیسف بچوں کو بچانے کیلئے اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرے، عرب ممالک اور عالمی برادری اسرائیلی جارحیت رکوانے میں ناکام ہیں۔علاوہ ازیں اسرائیلی فوج نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں 23 مارچ کو پیش آنے والے واقعے کی نئی تفصیلات جاری کی ہیں، جس میں 15 امدادی کارکنوں کی ہلاکت کے حوالے سے ابتدائی مقف میں تبدیلی کی گئی ہے۔ تاہم تحقیقات تاحال جاری ہیں۔ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ کے حکام کے مطابق یہ 15 امدادی کارکن اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد زخمیوں کی مدد کے لیے بھیجے گئے تھے، مگر انہیں فائرنگ کر کے شہید کر دیا گیا اور ان کی لاشیں ایک ہفتے بعد ایک کم گہری قبر سے برآمد ہوئیں۔
ایک کارکن اب بھی لاپتا ہے۔ابتدائی طور پر اسرائیلی فوج نے دعوی کیا تھا کہ انہوں نے اندھیرے میں بغیر لائٹس یا نشانات والی مشتبہ گاڑیوں پر فائرنگ کی تھی، اور ان میں نو عسکریت پسند موجود تھے۔ تاہم فلسطینی ریڈ کریسنٹ کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایمبولینس، فائر ٹرک اور امدادی کارکنوں کی یونیفارمز واضح طور پر نظر آ رہی ہیں، جن پر فائرنگ کی گئی۔واقعے کے واحد زندہ بچ جانے والے فرد، ریڈ کریسنٹ کے پیرا میڈک منظر عابد نے بھی تصدیق کی کہ فائرنگ واضح نشان والی ایمرجنسی گاڑیوں پر کی گئی۔اسرائیلی فوجی افسر کے مطابق تحقیقات میں ویڈیو کا تجزیہ جاری ہے اور مکمل نتائج کمانڈرز کو پیش کیے جائیں گے۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ ابتدائی رپورٹ میں لائٹس کا ذکر نہیں کیا گیا تھا، لیکن اب مکمل آپریشنل معلومات کو پرکھا جا رہا ہے۔ریڈ کریسنٹ اور اقوام متحدہ نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ اقوام متحدہ نے دعوی کیا ہے کہ امدادی ٹیموں کو یکے بعد دیگرے کئی گھنٹوں کے دوران نشانہ بنایا گیا، جب وہ اپنے لاپتا ساتھیوں کو تلاش کر رہی تھیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی