امریکہ میں اس برس وسط مدتی انتخابات، گزشتہ صدارتی انتخابات کا تسلسل بنتے نظر آ رہے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات 2024 میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات کا پیش منظر ثابت ہوسکتے ہیں۔ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں شکست کے بعد بھی اپنے حمایتیوں کے بل پر انتخابات میں شکست کے خلاف جدوجہد جاری رکھی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ گزشتہ امریکی انتخابات میں انہیں ووٹر فراڈ کے ذریعے ہٹایا گیا۔چنانچہ وہ مہینوں امریکی صدر جو بائیڈن کے خلاف اپنے اشتعال کا اظہار کرتے رہے ہیں۔نتیجتا سیاسی مقابلے بازی کا ایک ایسا مظاہرہ دیکھنے میں آیا جس کی اس سے پہلے نظیر نہیں ملتی جس میں موجودہ صدر اور ان کے قریبی پیش رو جو مستقبل میں ان کے مدِ مقابل بھی ہو سکتے ہیں، اپنی اپنی پارٹی کے امیدواروں کے لیے حمایت حاصل کرنے کی غرض سے ملک بھر کا سفر کریں۔ٹرمپ کو اس وقت متعدد امور کی چھان بین کا سامنا ہے۔ حال ہی میں ان کے مار آ لاگو میں ہوٹل میں خفیہ دستاویز رکھنے پر تحقیقات ہو رہی ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلسل بائیڈن پر تنقید کرتے رہے ہیں۔دوسری جانب بائیڈن نے پارٹی فنڈ ریزرز اور سرکاری تقاریب پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔ وہ ری پبلکن ایجنڈے پر مسلسل تنقید کرتے رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ٹرمپ پر براہ راست تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں لیکن ہفتے کے روز اوریگن میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران انہوں نے کہا کہ ری پبلکن پارٹی پر ٹرمپ کا غلبہ ہے۔دونوں رہنما عموما یکساں مقامات کا سفر کر رہے ہوتے ہیں۔
حال ہی میں دونوں نے پنسلوانیا کا دورہ چند دنوں کے وقفے سے کیا ہے۔امریکہ کی سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں سینٹر آف پریزیڈینشل ہسٹری کے بانی ڈائریکٹر جیفری اینجل کا کہنا ہے کہ یہ بہت تعجب خیز بات ہے۔ان کا کہنا تھا کہ 1932 میں ڈیموکریٹ فرینکلن روزویلٹ سے ہارنے کے بعد ری پبلکن ہربرٹ ہوور کی اقتدار میں واپسی کی کوششوں کے بعد یہ پہلی دفعہ ہے کہ کوئی سابقہ صدر انتخابات میں ناکامی کے بعد سیاسی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔بائیڈن اور ٹرمپ نے اگرچہ باضابطہ طور پر دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم اگر وہ دونوں اگلے صدارتی انتخاب میں دوبارہ آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ امریکہ کی سیاسی تاریخ کی طویل ترین سیاسی مسابقت ثابت ہوگی۔حال ہی میں اے پی اور این او آر سی کی جانب سے کئے جانے والے ایک سروے کے مطابق دس میں سے صرف تین امریکی بائیڈن اور ٹرمپ کو دوبارہ صدر دیکھنا چاہتے ہیں۔اینجل کا کہنا ہے کہ ان دونوں رہنماں کے مابین دوبارہ سیاسی ٹاکرہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ملک سیاسی طور پر آگے نہیں بڑھ رہا ہے۔حال ہی میں بائیڈن نے سی این این پر ایک انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو دوبارہ شکست دے سکتے ہیں۔جب کہ ٹرمپ اب بھی اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کی انتخابی ریلیوں میں اپنا یہ دعوی دہراتے ہیں کہ بائیڈن نے ووٹر فراڈ کی مدد سے اقتدار حاصل کیا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی