جی 7 ممالک اور چین کے درمیان رابطے اور روابط بہت مضبوط ہیں اگر جی 7 ممالک کی جانب سے چین کے خلاف اقدامات کیے گئے تو عالمی معیشت متاثر ہوگی ۔ گوادر پرو کے مطابق سیاسی تجزیہ کار اور جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، مشرق وسطیٰ، بحر ہند اور خلیج فارس کے سلامتی امور کے ماہر ڈاکٹر ر اشد احمد خان نے کہا ہے کہ ان تعلقات میں خلل یا کسی قسم کی خرابی بہت سے ممالک کو متاثر کرے گی۔ گوادر پرو کے مطابق نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے بعد صنعتی ممالک کے جی7 گروپ اور یورپی یونین نے چین کے خلاف الزامات سے بھرا ایک بیان جاری کیا۔ اس کے جواب میں یورپی یونین میں چینی مشن کے ترجمان نے ذکر کیا کہ وہ دن گئے جب چینی عوام کو غیر ملکی طاقتوں کے ذریعے پیچھے دھکیل دیا جاتا تھا۔ تائیوان کے معاملات خالصتاً چین کے اندرونی معاملات ہیں اور یہ چین کی خودمختاری کے دائرہ میں ہیں۔ آج کی دنیا اب اس دور میں نہیں رہی جب مغربی طاقتیں اپنی مرضی کے مطابق چل سکتی ہیں۔ گوادر پرو کے مطابق راشد نے کہا ایسا لگتا ہے کہ امریکہ نے جی 7 کے ساتھ ساز بازی کی ہے تاکہ اس کی لائن میں ٹانگ اڑائی جائے ۔ اس کا نتیجہ ترقی یافتہ ممالک کو بھگتنا پڑے گا۔ اگر وہ چین کے خلاف پابندیوں یا اقدامات کے بارے میں بات کرتے ہیں یا وہ چین کے ساتھ تعاون کی سطح کو کم کرتے ہیں، تو یہ چین کے مقابلے میں ان پر زیادہ اثر انداز ہو گا۔ گوادر پرو کے مطابق راشد نے کہا اب امریکہ کو یورپی یونین کو ایک ساتھ رکھنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ یورپ کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے امریکہ کسی نہ کسی طرح دوسری طاقتوں سے لڑتا اور جھگڑتا رہتا ہے۔ یہ متحرک کرتا ہے اور یورپ کو ان پر مجبور کرتا ہے۔ یورپی طاقتیں مجبور ہیں کیونکہ مغربی یورپ معاشی اور سلامتی کے حوالے سے اب بھی بڑی حد تک امریکہ پر منحصر ہے ۔ گوادر پرو کے مطابق امریکہ اور یورپی یونین روس کی توانائی پر انحصار کم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کے لیے مل کر کام کرنے جا رہے ہیں۔
چینی نشریاتی ادارے سی جی ٹی این کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ملک جس نے روسی قدرتی گیس کے صفر یونٹ درآمد کیے، اس نے 27 ممالک کے بلاک کو جو اپنی گیس کی تقریباً 40 فیصد طلب کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے کو درآمدات میں کمی کے لیے راضی کر لیا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق جون کا مہینہ تاریخ کا پہلا مہینہ بن گیا ہے جس میں یورپی یونین نے روس سے پائپ لائن کے مقابلے میں امریکہ سے ایل این جی کے ذریعے زیادہ گیس درآمد کی تھی۔ یورپی یونین توانائی کے بحران سے نبردآزما ہے جب کہ امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کو توانائی کی فی یونٹ فروخت کرنے سے یقیناً فائدہ اٹھائے گا۔ گوادر پرو کے مطابق راشد نے کہا امریکہ نے یورپی ممالک پر دباؤ ڈالا کہ وہ یوکرین کی حمایت کے لیے وہ اقدامات کریں جس کے لیے وہ تیار نہیں تھے۔ اگر جی 7 ممالک کو امریکہ کی طرف سے چین کے خلاف قدم اٹھانے پر مجبور کیا گیا تو اس سے نہ صرف جی 7 ممالک کی معیشت بلکہ مغربی اتحاد کا نظام بھی متاثر ہوگا۔ یہ ممالک کب تک امریکا کے لیے قربانیاں دیں گے یا اس کے دباؤ میں رہیں گے؟ پہلے ہی یورپی ممالک میں اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے امریکی دباؤ پر ناراضگی پائی جاتی ہے ۔
گوادر پرو کے مطابق اگر ہم 18ویں اور 19ویں صدی میں یورپی طاقتوں کے ساتھ چینی تعلقات کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ایک بھی یورپی ملک ایسا نہیں ملے گا جس نے چین کی بندرگاہوں پر اپنے تجارتی مراکز قائم نہ کیے ہوں۔ اگر ہم اس سے بھی آگے جا کر پرانے زمانے کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ موجودہ شکل میں دنیا کا ظہور چین اور یورپ کے تعلقات کی بنیاد پر ہوا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین شروع سے ہی اجناس کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا جسے یورپ اور دنیا کے دیگر علاقے استعمال کرتے تھے۔ گوادر پرو کے مطابق اب 170 سے زیادہ ممالک اور بہت سی بین الاقوامی تنظیموں نے ون چائنا پالیسی کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعادہ اور چین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے دفاع میں حمایت کا اظہار کرتے ہوئے امریکہ اور اس کے کم نظر اتحادی ممالک پر ایک برتری قائم کرتے ہوئے بات کی ہے۔ گوادر پرو کے مطابق چین اور امریکہ کے تعلقات حالیہ برسوں میں خراب ہو رہے ہیں۔ راشد نے کہا کہ چین اور امریکا دونوں بڑی سپر پاورز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر امریکا اور چین کے درمیان تعاون ہو تو دنیا کو درپیش بہت سے مسائل جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ اور کورونا کے خلاف جدوجہد کو حل کیا جاسکتا ہے۔
کریڈٹ:
انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی