خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے سعودی مجلس شوری کے تیسرے سال کے آٹھویں سیشن کا افتتاح کیا ہے۔سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے مجلس شوری کے اجلاس سے جامع خطاب میں مملکت کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر اظہار خیال کیا ہے۔ شوری کے سالانہ افتتاحی اجلاس کے موقع پر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان موجود تھے۔اپنے خطاب میں شاہ سلمان نے کہا کہ سعودی عرب توانائی حکمت عملی کے تحت عالمی تیل منڈی کے توازن اور استحکام کے لیے بھر پور کوشش کررہا ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے ایران سے اپیل کی کہ وہ ایٹمی توانائی کی عالمی ایجنسی سے بھرپور تعاون کرے۔ ہمسایہ ملکوں کے ساتھ اعتماد کا رشتہ قائم کرنے اور عالمی برادری کے ساتھ اعتماد کا رشتہ بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات اور ایٹمی پروگرام سے متعلق اپنے وعدے پورے کرے۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ مشرق وسطی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے اسلحے سے پاک کرنے کو یقینی بنانے اور مہلک ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے لیے کوششیں تیز کرے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سعودی عرب، افغانستان کو انسانی امداد فراہم کرتا رہے گا۔ چاہتے ہیں کہ افغانستان میں امن و امان مستحکم ہو اور یہ دہشت گردانہ سرگرمیوں یا دہشت گردوں کا ٹھکانہ نہ بنے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا کہنا تھا کہ سعودی عرب لیبیا میں مکمل جنگ بندی کا حامی ہے اور لیبیا کے رہنماں کی اس بات کی تائید کرتا ہے کہ غیرملکی افواج غیر ملکی جنگجو اور اجرتی جنگجو کسی تاخیر کے بغیر لیبیا سے فورا نکل جائیں۔ لبنان کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ ہم لبنان میں ایسی بنیادی سیاسی و اقتصادی اصلاحات کے نفاذ کو بھی ضروری سمجھتے ہیں جن کی بدولت لبنانی بحران پر قابو پایا جاسکے۔ ملک میں امن و امان قائم کرنے نیز منشیات کی سمگلنگ اور دہشت گردانہ سرگرمیوں سے نمٹنے کے لیے لبنان کے چپے چپے پر حکومت کا رٹ قائم ہو۔ انہوں نے کہا کہ شام کی خودمختاری، استحکام اور اس کی عرب شناخت کے تحفظ کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی پابندی کو ضروری سمجھتے ہیں اور وہاں تشدد کی نئی لہر کو بھڑکنے سے روکنے پر زور دیتے ہیں۔
اپنے خطاب میں شاہ سلمان نے سوڈانی عوام کی مدد کے عہد کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ سوڈان کے تمام فریقوں کے درمیان مکالمے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ہر اس کوشش کے ساتھ ہیں جو سوڈانی ریاست اور اس کے اداروں کے تحفظ میں معاون بنے۔عراق کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عراق کا امن و استحکام خطے کے امن و استحکام کے حوالے سے بنیاد کے پتھر کادرجہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب عراق میں امن و استحکام، ترقی، اتحاد و سالمیت، اس کی عرب شناخت اور سماجی نظام کے استحکام میں یقین رکھتا ہے۔ یمنی بحران سے متعلق اس خواہش کا اظہار کیا کہ یمن میں اقوام متحدہ جنگ بندی کے جس سمجھوتے کی سرپرستی کررہی ہے اور جو سعودی امن و ااقدام سے مطابقت رکھتا ہے وہ سمجھوتہ یمنی بحران کے خاتمے اور یمنی فریقوں کے درمیان پائدار امن کے قیام اور جامع سیاسی حل تک رسائی کا باعث بنے۔ مشرق وسطی کا امن و استحکام اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ عرب امن اقدام اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ فلسطین کا جامع اور مبنی بر انصاف حل جلد از جلد نکالا جائے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ روس یوکرین بحران ختم کرانے، عسکری آپریشن بند کرانے، جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے اورعلاقائی و بین الاقوامی امن و استحکام کے تحفظ کی خاطر کی جانے والی تمام بین الاقوامی کوششوں کا بھرپور ساتھ دیا جائے اور اس بحران کا سیاسی حل نکالا جائے۔ ایسے عالم میں جبکہ دنیا بھر میں جنگیں اور جھگڑے مشاہدے میں آرہے ہیں، سعودی عرب اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ سب لوگ عقل اور فراست کی آواز پر لبیک کہیں۔ پرامن حل، مذاکرات اور مکالمے کے راستے اپنائیں۔ خادم حرمین شریفین نیمزید کہا کہ مملکت اپنے دوطرفہ تعلقات نیز بین الاقوامی تنظیموں اور گروپوں کے ساتھ مل کر دنیا بھر میں درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کے فروغ کے لیے کام کررہا ہے۔ مملکت چاہتی کہ ہم زیادہ پرامن اور زیادہ منصفانہ ماحول تک رسائی حاصل کریں۔ آنے والی نسلوں اور اقوام کے لیے عروج پذیر مستقبل کو یقینی بنائیں۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی