اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا مہنگائی سے نمٹنے اور پالیسی ریٹ میں کمی کا عزم قابل تعریف ہے۔ تاہم، گہری اقتصادی اصلاحات اور پالیسی کے استحکام کے بغیر کاروباری برادری کو مسابقت کو برقرار رکھنے اور پائیدار ترقی کو فروغ دینے میں اہم چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔سنٹر فار بزنس اینڈ اکنامک ریسرچ کے ڈویلپمنٹ اکانومسٹ ڈاکٹر وقاص احمد نے ویلتھ پاک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرکزی بینک کی جانب سے پالیسی ریٹ میں کمی کے حالیہ فیصلے نے قرض لینے کے اخراجات میں کمی کے حوالے سے کاروباری اداروں کو کچھ ریلیف فراہم کیا ہے لیکن یہ واحد اقدام ہے جوبنیادی معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے ناکافی ہے۔ان کا خیال تھا کہ معیشت میں تنوع اور برآمدی مسابقت میں بہتری سمیت ساختی اصلاحات کے بغیر، مانیٹری پالیسی کی تبدیلیوں کا اثر محدود رہے گا۔مزید برآں انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز پالیسی سازی میں استحکام کی کمی کے ساتھ گہرے جڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی پالیسیوں میں متواتر تبدیلیاں، خاص طور پر ٹیکس کے نظاموں اور تجارتی ضوابط میں، کاروباروں کے لیے غیر یقینی کا ماحول بنا ہوا ہے جس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے۔انہوں نے دلیل دی کہ ایک مستحکم پالیسی ماحول طویل مدتی اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے کیونکہ کاروباروں کو منصوبہ بندی کرنے اور باخبر فیصلے کرنے کے لیے پیشین گوئی کی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے کاروباروں کی مدد کے لیے ہدفی اقدامات کی وکالت کی، جیسے کہ ان کے ٹیکس کے بوجھ کو کم کرنا اور سستی مالیات تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ کاروباری اداروں کو درپیش چیلنجوں میں حصہ ڈالنے والا ایک اور اہم عنصر ٹیکس کا نظام ہے جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ غیر موثر اور بوجھل ہے۔ پاکستان بزنس کونسل کے ایک عہدیدار نے ٹیکس میں جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا جو نظام کو آسان اور کاروبار کی ترقی کے لیے مزید سازگار بنائیں۔انہوں نے نوٹ کیا کہ ٹیکس کی تعمیل کی پیچیدگی بلندشرحوں کے ساتھ، بہت سے کاروباروں کو غیر رسمی شعبے کی طرف دھکیل رہی ہے جس سے مجموعی ٹیکس کی بنیاد کم ہو رہی ہے اور عوامی مالیات پر مزید دبا وہے۔انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ ٹیکس سے جی ڈی پی کا تناسب خطے میں سب سے کم رہا جس سے حکومت کی اہم انفراسٹرکچر اور عوامی خدمات میں سرمایہ کاری کرنے کی صلاحیت پر اثرات مرتب ہوئے۔ویلتھ پاک سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد جاوید بلوانی نے شرح سود میں صرف 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے 13 فیصد کرنے کے اسٹیٹ بینک کے فیصلے پر تنقید کی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ تاجر برادری 400 سے 500 بیسس پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ موجودہ شرح بہت زیادہ ہے اور اسے ہندوستان (6.5%)، ویتنام (4.5%) اور بنگلہ دیش (10%) جیسے ممالک کے مطابق 5% اور 7% کے درمیان مزید کم کیا جانا چاہیے۔فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر عاطف اکرام شیخ نے شرح سود میں 2 فیصد کمی کا خیر مقدم کیا لیکن دلیل دی کہ موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر یہ ناکافی ہے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ افراط زر اب 78 ماہ کی کم ترین سطح 4.9 فیصد پر ہے، پالیسی کی شرح کو تیزی سے سنگل ہندسے تک کم کیا جانا چاہیے۔ شیخ نے بڑھتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اور کرنٹ اکاونٹ سرپلس سمیت مثبت معاشی اشاریوں کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ شرح میں مزید کمی سے اقتصادی ترقی اور کاروباری سرگرمیوں کو تحریک ملے گی۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک