i آئی این پی ویلتھ پی کے

بیوروکریسی کی رکاوٹوں سے سندھ میں چھوٹی صنعتوں کے منصوبے رک گئے: ویلتھ پاکستانتازترین

November 10, 2025

سندھ میں چھوٹی صنعتوں کو فروغ دینے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے کئی ترقیاتی منصوبے سندھ اسمال انڈسٹریز کارپوریشن کی بیوروکریسی اور غیر ضروری کارروائیوں کے باعث تاخیر کا شکار ہیں۔ایس ایس آئی سی کا قیام صوبے بھر میں چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کی ترقی کے لیے کیا گیا تھا مگر مختلف صنعتی اسٹیٹ منصوبے اور کاروباری سکیمیں محکمانہ ہم آہنگی کی کمی، لمبے منظوری کے مراحل اور غیر ضروری کاغذی کارروائیوں کی وجہ سے رکی ہوئی ہیں۔ ان تاخیرات کے باعث نئے صنعتی علاقوں کے قیام، موجودہ زونز کی توسیع اور چھوٹے کاروباری افراد کو فنڈز کی فراہمی متاثر ہوئی ہے۔کارپوریشن کا ایک اہم کام چھوٹی صنعتوں کو بنیادی ڈھانچہ، تکنیکی مدداور مالی سہولت فراہم کرنا ہے مگر اندرونی نظام میں حد سے زیادہ کاغذی کارروائی، پرانے طریقہ کار اور اختیارات کے ٹکرا نے منصوبوں کی بروقت تکمیل مشکل بنا دی ہے۔ذرائع کے مطابق کئی فائلیں مہینوں تک مختلف منظوریوں کے انتظار میں پڑی رہتی ہیں۔ بعض اوقات زمین کی الاٹمنٹ یا بجلی و پانی کے کنکشن کی منظوری میں برسوں لگ جاتے ہیں۔

یہ انتظامی تاخیر نہ صرف منصوبوں کی تکمیل میں رکاوٹ ڈالتی ہے بلکہ حکومت اور سرمایہ کاروں دونوں کے اخراجات بھی بڑھا دیتی ہے۔کاروباری افراد کا کہنا ہے کہ سست منظوری کے عمل اور بروقت فیصلوں کی کمی نئی سرمایہ کاری کو حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ بہت سے چھوٹے کاروباری حضرات جنہوں نے برسوں پہلے پلاٹ یا مالی امداد کے لیے درخواست دی تھی، اب تک جواب کے منتظر ہیں یا منصوبے کے بارے میں غیر واضح معلومات کا سامنا کر رہے ہیں۔چند جاری منصوبے، جیسے حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ اور میرپورخاص میں نئی چھوٹی صنعتی اسٹیٹس کے قیام کے منصوبے ان تاخیرات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اس سست رفتاری کے باعث زمین غیر استعمال شدہ ہے، بنیادی ڈھانچہ نامکمل ہے اور بجلی، پانی اور سڑکوں جیسی سہولیات کی فراہمی بھی رکی ہوئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف بیوروکریسی نہیں بلکہ کارپوریشن کے پرانے انتظامی نظام کی وجہ سے بھی ہے۔

ماہر برائے ایس ایم ایز ندیم جعفری نے ویلتھ پاکستان سے گفتگو میں کہاکہ ڈیجیٹل نظام کی کمی، کمزور نگرانی اور احتساب نہ ہونے سے مسائل بڑھ گئے ہیں۔ اسی وجہ سے سندھ کا چھوٹے صنعتوں کا شعبہ اپنی مکمل صلاحیت کے باوجود دوسرے صوبوں کی طرح ترقی نہیں کر سکا۔انہوں نے کہا کہ تاخیر کا براہِ راست اثر چھوٹے کاروباری افراد پر پڑتا ہے جو اپنے کاروبار کے آغاز یا توسیع کے لیے سرکاری مدد پر انحصار کرتے ہیں۔ چھوٹے صنعتکار، دستکاراور تاجر ایس ایس آئی سی کی اسکیموں کے ذریعے زمین، قرض اور تربیت کی سہولت حاصل کرتے ہیں۔ جب منصوبے رک جاتے ہیں تو ان کے لیے آمدنی اور روزگار کے مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔ندیم جعفری نے بیوروکریسی کی رکاوٹوں کے خاتمے اور منصوبوں کی بہتر عملدرآمد کے لیے جامع اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے تجویز دی کہ ای گورننس، آن لائن درخواست ٹریکنگ اور سنگل ونڈو سسٹم متعارف کرایا جائے تاکہ منظوری کا عمل آسان ہو اور شفافیت بڑھے۔انہوں نے مزید کہا کہ منصوبوں کی بروقت اور بجٹ کے اندر تکمیل یقینی بنانے کے لیے احتساب اور کارکردگی کے نظام کو بھی مضبوط کرنا ضروری ہے۔

کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی ویلتھ پاک