کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی ، جس کے بعد ان کی لبرل پارٹی نئی مدت کے لئے برسر اقتدار آ گئی ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق لبرل پارٹی کی جانب سے رائے دہندگان کو یقین دلایا گیا کہ معاشی بحرانوں سے نمٹنے کے اپنے تجربے کی وجہ سے وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔سرکاری نشریاتی ادارے سی بی سی اور دیگر ذرائع ابلاغ نے پیشگوئی کی ہے کہ لبرلز کینیڈا کی اگلی حکومت تشکیل دیں گے، لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کریں گے یا نہیں۔کنزرویٹو پارٹی کے رہنما پیئر پوئیلییور وزیر اعظم بننے سے قاصر رہے، لیکن ان کی جماعت پارلیمنٹ میں ایک مضبوط اپوزیشن تشکیل دینے کی راہ پر گامزن ہے۔ٹرمپ کی تجارتی جنگ اور کینیڈا کے ساتھ الحاق کی دھمکیوں نے کینیڈا کے عوام کو ناراض کر دیا تھا، اور امریکا کے ساتھ معاملات کو انتخابی مہم کا سب سے بڑا مسئلہ بنا دیا۔کارنی، جو کبھی منتخب عہدے پر نہیں رہے تھے اور گزشتہ ماہ جسٹن ٹروڈو کی جگہ وزیر اعظم بنے تھے، نے اپنی انتخابی مہم کی شروعات ٹرمپ مخالف پیغام پر کی تھی۔وہ اس سے قبل برطانیہ اور کینیڈا دونوں میں مرکزی بینک کے گورنر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں اور رائے دہندگان کو قائل کرتے ہیں کہ ان کے عالمی مالیاتی تجربے نے انہیں تجارتی جنگ کے ذریعے کینیڈا کی رہنمائی کرنے کے لئے تیار کیا ہے۔
سیاست میں آنے سے قبل بطور عالمی بینکر خدمات انجام دینے والے مارک کارنی نے امریکا پر کینیڈا کے انحصار کو روکنے کے لیے بیرون ملک تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کا وعدہ کیا۔ٹرمپ کے خطرے کے بارے میں کارنی کی وضاحت واضح رہی ہے۔انہوں نے انتخابی مہم کے دوران کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہمیں توڑنا چاہتے ہیں تاکہ امریکا ہمارا مالک بن سکے، وہ ہمارے وسائل چاہتے ہیں، وہ ہمارا پانی چاہتے ہیں، وہ ہماری زمین چاہتے ہیں، وہ ہمارا ملک چاہتے ہیں۔ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔جب سی بی سی پروجیکشن کا اعلان کیا گیا تو اوٹاوا کے مقام پر خوشی کی لہر دوڑ گئی، جہاں لبرل جماعت کے حامی نتائج دیکھ رہے تھے۔72 سالہ ڈوروتھی گوبالٹ نے بتایا کہ مجھے خوشی ہے کہ ہمارے پاس کوئی ایسا شخص ہے، جو ٹرمپ سے ان کی سطح پر بات کر سکتا ہے، ٹرمپ ایک کاروباری شخص ہیں، کارنی ایک کاروباری شخص ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ وہ دونوں میں مقابلہ ہوسکے گا۔جسٹن ٹروڈو کے استعفے سے قبل ٹرمپ نے ان کا مذاق اڑاتے ہوئے وزیر اعظم کو گورنر قرار دیا تھا، اور کینیڈا پر زور دیا تھا کہ وہ امریکا کی 51 ویں ریاست بن جائے۔
ڈوروتھی گوبلٹ نے کہا کہ اب وہ توقع کرتی ہیں کہ یہ مذاق بند ہو جائے گا، کیوں کہ یہ اب گورنر نہیں ، یہ کینیڈا کا وزیر اعظم ہے، اور یہ اب 51 ویں ریاست نہیں ہے. ہم کینیڈا ہیں۔لبرل قانون ساز اور کارنی کی کابینہ کے رکن اسٹیون گلبولٹ نے نتائج کو ٹرمپ سے منسلک کیا، انہوں نے سی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کینیڈین معیشت، خودمختاری اور ہماری شناخت پر متعدد حملوں نے واقعی کینیڈین باشندوں کو متحرک کیا، اور میرے خیال میں انہوں نے وزیر اعظم کارنی میں ایک ایسے شخص کو دیکھا ہے جسے عالمی معاملات کا تجربہ ہے۔ سابق وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی رخصتی لبرلز کی جیت کے لیے بھی اہم تھی، جس نے کینیڈا کی سیاسی تاریخ میں سب سے ڈرامائی تبدیلیوں میں سے ایک کا آغاز کیا۔6 جنوری کو، جس دن ٹروڈو نے استعفی دینے کا اعلان کیا تھا، کنزرویٹو پارٹی نے زیادہ تر انتخابات میں لبرلز پر 20 سے زیادہ پوائنٹس کی برتری حاصل کر لی تھی، کیوں کہ ٹروڈو کی ایک دہائی کے اقتدار کے بعد رائے دہندگان کا غصہ بڑھ گیا تھا۔لیکن ٹروڈو کی جگہ کارنی نے ٹرمپ کے بارے میں ملک گیر بے
چینی کے ساتھ مل کر دوڑ کو تبدیل کر دیا۔60 سالہ مارک کارنی نے انتخابی مہم کے دوران ٹروڈو سے دوری اختیار کر لی تھی، انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے کینیڈا کی بڑھتی ہوئی معیشت پر زیادہ توجہ نہیں دی، اور کاربن کے اخراج پر ٹروڈو کے متنازع ٹیکس کو ختم کر دیا، جس سے بہت سے رائے دہندگان حیران رہ گئے۔2 دہائیوں سے پارلیمنٹ میں رہنے والے 45 سالہ پولییورے کے لیے یہ نتیجہ ایک سخت شکست کی علامت ہے۔ٹرمپ کے خلاف غصے کی وجہ سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ وہ ان داخلی خدشات پر توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں، جن کی وجہ سے ٹروڈو غیر مقبول ہوئے۔انھوں نے رائے دہندگان کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ کارنی ناکام لبرل حکمرانی کو جاری رکھنے کی پیش کش کریں گے۔اوٹاوا میں کنزرویٹو واچ پارٹی میں جیسن پیچے نے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ نتائج سے حیران ہیں۔جیسن پیچے نے کہا کہ مجھے امید تھی کہ آج رات ایک بڑا جشن منایا جائے گا۔
کریڈٹ: انڈیپنڈنٹ نیوز پاکستان-آئی این پی